بھوپال میں گری حکومت‘ سیاسی خلاء بازیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

,

   

اقتدار پر برقرار ہنے یا اس سے باہر جانے کے لئے کانگریس ایک ساتھی کھڑی دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش ڈرامہ میں بی جے پی کی شبہہ بھی خراب ہوئی ہے

نئی دہلی۔آخر کار جمعہ کے روز مدھیہ پردیش میں ڈرامہ کا اختتام اس وقت عمل میں آیاجب چیف منسٹر کمل ناتھ نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق فلور ٹسٹ کے باوجود گورنر لالجی ٹنڈن کو اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے۔

ظاہر ہے کہ کانگریس اپنے 16اراکین اسمبلی کو جو کانگریس کے ٹکٹ پر جیت حاصل کرنے کے بعد سندھیا کے ساتھ وہ جانے کو انہوں نے ترجیح دی اور انہیں پارٹی میں واپس لانے میں ناکام ہوگئی ہے‘

اسی ماہ کے اوائل میں سندھیا نے کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

تمام واقعہ کا پس منظر جمہوریت کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لئے سیاسی حربوں کے طور پر عالیشان‘ عیش وعشرت والے ریسورٹ کی سیاست کو فروغ دینے کے قیاس آرائیوں اورالزامات میں گھیرا ہوا ہے

YouTube video

بھوپال میں حال ہی میں ہوئے واقعات کانگریس پارٹی میں انتہائی بے حسی او رباظاہر نے رکنے والا بہاؤ دیکھائی دے رہا ہے۔

اس کے قائدین بالخصوص اس کے اعلی قیادت مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو ہندی بولی والی ریاست میں سیاسی طور پر حساس کانگریس حکومت کو گرانے کی ذمہ داری تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

بی جے پی نے سندھیا کا پسند کیا اور اس کو اپنے حق میں کرلیا‘ کیا کانگریس کی قیادت اس یقینی طور پر اس بات سے واقف تھی کہ مدھیہ پردیش یونٹ ناانصافی ہورہی ہے‘

یہاں تک کہ اپنے گھر کو ترتیب دینے کی کوشش کی‘ بالخصوص اس وقت جب حکومت کے پاس کمزور اکثریت ہے؟۔

جب عوام رائے حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے‘کانگریس دونوں محاذوں پر تیار نہیں دیکھائی دیتی ہے۔

پارٹی نے سیاسی‘ تنظیمی‘ نظریاتی وسائل کے حوالے سے اپنے ہی اراکین اسمبلی کو راغب کرنے میں ناکام دیکھائی دے رہی ہے جو کہ ان کی پارٹی کا ایک مستقبل ہیں۔

اس کے ابتدائی برتاؤ کا مقصد ریاستوں جیسے گوا‘ منی پور‘ اروناچل پردیش میں الیکشن میں جیت حاصل نہ کرنے کے باوجود حکومت کی تشکیل دینا ہونا چاہئے تھا جس سے منفرد اصولوں کے پارٹی ہونے کا دعوی کرنے والی شبہہ کو نقصان پہنچایاہے۔

مدھیہ پردیش میں ہونے والی پیش رفت سے مخالف انحراف قانون کے حدود کا انکشاف ہوا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے کرناٹک میں پیش ائے واقعات کے پس منظر میں فیصلہ سنایاہے‘

جس میں صاف طور پر کہاگیاہے کہ جو رکن اسمبلی جو مدمقابل کی جانب جانا چاہتا ہے اس کو ایوان میں داخل ہونے کے لئے دوبارہ الیکشن میں مقابلہ کرنے پڑے گا۔

محض پندرہ ماہ بعد ایک نئی اسمبلی کا انتخاب ہوا ہے‘ ایم پی میں اب کم سے کم 23ضمنی الیکشن ہوں گے۔

اس کا بوجھ عوام کے پیسے پر پڑے گا جس کو سیاسی دھوکے کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے