بہار ،تبدیلی کی لہر کا آغاز

   

وفا کی توقع میں مٹتے رہے ہم
تمہارا کرم بھی تھا بس ایک بہانہ
ملک میں جب کبھی انتخابات کا موسم ہوتا ہے کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئے نئے اتحاد کئے جاتے ہیں اور نئی نئی پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت کرتے ہوئے عوام کے درمیان پہونچ کر مقابلہ کیا جاتا ہے ۔ اب جبکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت انتخابی بگل باضابطہ طور پر بج سکتا ہے ایسے میں بہار میںچیف منسٹر نتیش کمار نے آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ مہا گٹھ بندھن کو خیرباد کہتے ہوئے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد سے دوستی کرلی ہے ۔ وہ اب مودی کیس اتھ اسٹیج پر پہونچ رہے ہیں اور انہیں یہ تیقن دہرانا پڑ رہا ہے کہ وہ اب بی جے پی کا ساتھ نہیںچھوڑیں گے ۔ انہیںاور بی جے پی کو امید تھی کہ بہار میں اگر وہ دونوں ساتھ آجائیں تو کانگریس اور آ ر جے ڈی کو ایک بار پھر شکست دی جاسکتی ہے ۔ جس طرح دونوں جماعتوں نے گذشتہ انتخابات میں بہار میں لوک سبھا کی تقریبا تمام نشستوں پر قبضہ کرلیا تھا اسی طرح اس بار بھی انہیںوہی نتائج دہرائے جانے کی توقع ہے ۔ تاہم اتو ار کو پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان پر ایک ریلی منعقد ہوئی ۔ انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے اس میںشرکت کی ۔ اس ریلی میں آر جے ڈی کے علاوہ کانگریس ‘ سماجوادی پارٹی اور کمیونسٹ جماعتوں کے قائدین شریک رہے ۔ سیاسی قائدین کا ایک اسٹیج پر پہونچنا تو کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اپنی اپنی حکمت عملی کے حساب سے یہ لوگ اسٹیج شئیر کرتے ہیں تاہم سب سے اہم بات جو کل دکھائی دی وہ اتحاد کے تعلق سے بہار کے عوام کا جوش و خروش تھا ۔ گاندھی میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ پٹنہ شہر کی تقریبا تمام سڑکیں ریلی کے شرکاء سے جام ہونے لگی تھیں اور لاکھوں کی تعداد میں عوام اس ریلی میں شریک رہے ۔ عوام میں انڈیا اتحاد کی جماعتوں کے تعلق سے جو جوش و خروش دیکھا گیا وہ بھی مثالی تھی ۔ لوگ ایسا لگ رہا تھا کہ ریاست میں اب لوک سبھا انتخابات کے ذریعہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ جس طرح سے انڈیا اتحاد کے قائدین کی تقاریر کا خیر مقدم کیا گیا اور جس طرح سے وہاں نعرے لگائے گئے وہ انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور عوام کے موڈ کا پتہ چلتا ہے ۔
ویسے بھی بہار کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ انقلابی سرزمین ہے ۔ کئی عوامی تحریکیں اسی ریاست کی سرزمین سے شروع ہوئی تھیں جنہوں نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ کئی قائدین ایسے رہے ہیںجو بہار سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے سارے ملک کی سیاست پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ نتیش کمار اور بی جے پی بھلے ہی ایک دوسرے سے اتحاد کرتے ہوئے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر کلین سویپ کے خواب دیکھ رہے ہوں لیکن بہار کے عوام کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ بہار میں تبدیلی کی لہر نے شروعات کردی ہے ۔ حالانکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے ابھی وقت باقی ہے اور اس سے پہلے لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ لوک سبھا انتخابات کیلئے مسائل مختلف ہوتے ہیں لیکن بہار کے عوام کے موڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے لوک سبھا انتخابات سے ہی تبدیلی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ ویسے تو گودی میڈیا اور دوسرے چاپلوس اداروں کی جانب سے حقیقی صورتحال کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے پہلو تہی کی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ریاست میں تبدیلی کیلئے عوام کا موڈ بن رہا ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ بن چکا ہے ۔ اب آئندہ چند ہفتوں میں جو انتخابی صورتحال پیدا ہوگی وہ دلچسپ اور اہمیت کی حامل ہوگی ۔ جس طرح سے عوام کے موڈ کو بدلنے کی کوششیں ہوتی ہیں ان پر بطور خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔
بہار میں آر جے ڈی ۔ کانگریس دیگر چھوٹی جماعتوں اور کمیونسٹ جماعتوں کے مابین اتحاد ہے ۔ اس کے علاوہ کل کی ریلی اور جلسہ میں اترپردیش سے سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو کی شرکت اور آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کی عزت و توقیر انہوں نے جس طرح سے کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتوں میں دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور یہ جماعتیں ایک دوسرے کی عزت و احترام کے ساتھ کام کرنے کیلئے کمر کس چکی ہیں۔ ان میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں آگے بھی ہوتی رہیں گی اسی لئے ان کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے غفلت کو ترک کرتے ہوئے چوکس رہنا ضروری ہے ۔