بہار میں انڈیا اتحاد

   

ملبوں میں چھپے ہوتے ہیں انمول خزانے
آئینے ملیں گے تجھے پتھر تو ہٹادے
اترپردیش کی طرح سیاسی اعتبارس ے اہمیت رکھنے والی ریاست بہار میں بھی ایک طرح سے انتخابی بساط بچھ گئی ہے ۔ ریاست میں نئی سیاسی صف بندیاں ہوچکی ہیں۔ چیف منسٹر نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ نے مہا گٹھ بندھن سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میںشمولیت اختیار کرلی ہے ۔اس کے علاوہ لوک جن شکتی پارٹی کا بھی مسئلہ عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔چار برس تک جس طرح سے پشوپتی ناتھ پارس کو مرکز میں وزارت دیتے ہوئے بی جے پی نے کام چلایا تھا عین انتخاباتسے قبل پشوپتی ناتھ پارس سے ترک تعلق کرتے ہوئے ان کے بھتیجے چراغ پاسوان کا ہاتھ تھام لیا گیا ۔ ریاست میں بی جے پی اب ایک طرح سے غلبہ والی جماعت بن گئی ہے اور وہ جنتادل یو یا پھر دوسری چھوٹی جماعتیں ہوں سب کو اپنے اشاروں پر چلانے کے موقف میں آگئی ہے ۔ بی جے پی یہی چاہتی تھی اور آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل جے ڈی یو کو اس کی سیاسی جگہ دکھا دی جائے گی ۔ کچھ مقامی جماعتوںکو تو صرف ساتھ کھڑا کرنے کی حد تک محدود کردیا گیا ہے ۔ این ڈی اے اتحاد کی جانب سے تمام حلیف جماعتوں میںنشستوں کی تقسیم کا عمل پورا ہوچکا ہے ۔ جے ڈی یو ۔ بی جے پی اور چراغ پاسوان میں نشستیں تقسیم ہوچکی ہیں۔ اسی طرح انڈیا اتحاد نے بھی اب اپنی نشستوں کی تقسیم کو قطعیت دیدی ہے ۔ کانگریس اور آر جے ڈی کے علاوہ کمیونسٹ جماعتوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے اور دوسری کچھ مقامی قائدین کی جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جس طرح سے کانگریس اور آر جے ڈی نے نشستوں کی تقسیم عمل میں لائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ دونوں ہی جماعتوں نے کامیابی کے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی فیصلے کئے ہیں۔ نتیش کمار کی انحراف کی سیاست سے ریاست کے عوام اوب چکے ہیں اور وہ انہیں سبق سکھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ این ڈی اے اتحاد کو بہار سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد میںخاطر خواہ گراوٹ آئے گی ۔
بہار میں انتخابات کے عمل کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ ویسے تو سارے ملک میں ہونے والے انتخابات ہی اہمیت کے حامل ہیں تاہم بہار میں رائے عامہ کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ آئندہ برس وہاں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ بی جے پی بتدریج نتیش کمار کو حاشیہ پرکرتے ہوئے مہاراشٹرا کی طرح یہاں بھی اقتدار پر اپنا تنہا قبضہ چاہتی ہے ۔ اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس۔ آر جے ڈی اور کمیونسٹ جماعتوں میں جس طرح سے اتفاق رائے کے ساتھ نشستوں کی تقسیم عمل میں لائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ بہار میں انڈیا اتحاد کیلئے امکانات بہت اچھے ہوگئے ہیں۔ حالانکہ پرشانت کشور اور کچھ دوسرے عوامل بھی انتخابی عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں تاہم جس طرح سے تیجسوی یادو اور کانگریس قائدین کی جانب سے عوام میں شعور بیدار کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور انہیں سیاسی صورتحال کی اہمیت سے واقف کروایا جا رہا ہے اس کے پیش نظر ریاست میں انڈیا اتحاد کے امکانات میں بہتری دکھائی دے رہی ہے ۔ تیجسوی یادو نے ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر رہتے ہوئے جو خدمات انجام دی ہیںوہ بھی عوام میںمقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ تیجسوی یادو عوام میں سرکاری نوکریوں کی فراہمی اوردیگر اسکیمات و اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی اپنے طور پر ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔
حالانکہ ابھی تک انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز عمل میں نہیں آیا ہے لیکن خاموشی سے جو عوامی موڈ میں تبدیلی نظر آ رہی ہے اس سے انڈیا اتحاد کے حوصلے بلند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں انڈیا اتحاد نے بہار میںکوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی اور اسے کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ تاہم اس بار کہا جا رہا ہے کہ حالات انڈیا اتحاد سے زیادہ این ڈی اے اتحاد کیلئے مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مشکلات بھی محض نتیش کمار کی انحراف کی سیاست کی وجہ سے زیادہ پیش آنے لگی ہیں۔ بی جے پی کو بھی یہ احساس ہوجائیگا کہ اس نے نتیش کمار کو جو اپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے وہ اس کیلئے فائدہ سے زیادہ نقصان کا باعث بن گیا ہے ۔ تاہم اس تعلق سے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا ۔