بہار کے پارلیمانی نتائج کیا ہونگے ؟

   

ہم سمجھتے جو کبھی کاش مزاجِ دوراں
اتنی بربادیٔ اوقات نہ ہونے پاتی
اترپردیش کے بعد سیاسی اعتبار سے ملک کی دوسری اہم سمجھی جانے والی ریاست بہار میںسیاسی صورتحال اکثر و بیشتر جس تیزی کے ساتھ بدلتی ہے اس سے سارا ملک ہی واقف ہے ۔ چیف منسٹر نتیش کمار ریاست میںپانچ مرتبہ اپنی سیاسی وفاداریاںاور اتحاد بدل چکے ہیںاور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر بار وہ اپنی چیف منسٹر کی کرسی بچانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ تاہم اس بار جب انہوں نے آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ مہا گٹھ بندھن سے اتحاد ختم کرتے ہو ئے دوبارہ نریندر مودی سے ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا تو یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ بہار میں نتیش کمار کی سیاسی اہمیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آنے لگا ہے اور اس کے اثرات نہ صرف جے ڈی یو کے انتخابی امکانات پر مرتب ہونگے بلکہ بی جے پی بھی اس سے پوری طرح محفوظ نہیں رہ پائے گی ۔ اس کے کچھ اثرات بی جے پی کے انتخابی امکانات پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ ویسے تو سارے ملک میںمیڈیا اور سیاسی تجزیہ نگار ایک ہی لئے میں این ڈی اے کے گن گانے میں مصروف ہیں۔ ہر گوشے سے یہی صدا بلند کی جا رہی ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی ہی پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کرے گی ۔ اس نعرہ سے بہار بھی محفوظ نہیں ہے اور بہار میں بھی جے ڈی یو اور بی جے پی اتحاد کی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ کچھ گوشے ایسے ہیں جو عوام کی نبض سمجھتے ہیں اور وہ کسی کی حمایت میں بہہ جانے کی بجائے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ عوام کے فیصلہ پر اثر انداز ہونا چاہئے ۔ محض میڈیا اور تجزیہ نگاروں کو خرید کر ایک رائے عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنا ایک نیا طریقہ ہے جو ہندوستان میں اب عام ہوچکا ہے ۔ تاہم دعوی کیا جا رہا ہے کہ بہار میں اس طرح کے تمام نعرے اور پروپگنڈے کامیاب نہیںہو پائیں گے ۔ نتیش کمار کی سیاسی مقبولیت کا گراف جس تیزی سے نیچے آنے لگا ہے اس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ بلکہ بی جے پی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور جے ڈی یو نے فی کس 17 , 17 پارلیمانی نشستیں جیتی تھیں۔
نتیش کمار کی ایک اور دل بدلی اور سیاسی انحراف کے بعد کچھ گوشوں سے دوبارہ یہ مہم شروع کردی گئی ہے کہ اس بار بھی این ڈی اے اتحاد بہار میں بھاری کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔ تاہم اس کیلئے کوئی واضح دلیل یا وجوہات بتائی نہیں جا رہی ہیں۔ محض یہ کہا جا رہا ہے کہ بہار کے عوام لالو پرساد یادو کی پارٹی کو ووٹ دینے تیار نہیں ہے کیونکہ ان کے 20 سالہ اقتدار میں بہار میں جنگل راج تھا ۔ لالو پرساد یادو کا دور ختم ہوئے بھی 20 سال گذر چکے ہیں اور اب بھی اگر اسی اقتدار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بی جے پی بھی ملک کو درپیش مسائل کیلئے اب بھی پنڈت نہرو کو ذمہ دار قرار دیتی ہے اور اپنے دس سالہ دور اقتدار میں جو کچھ کیا جانا چاہئے تھا اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔ بہار میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے جو قومی سطح پر بی جے پی نے اختیار کیا ہوا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی جیت کے صرف دعوے کئے جا رہے ہیں اور ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کو بھی یہ احساس شائدا بھی تک نہیں ہوا ہے کہ نتیش کمار کی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کا اسے بھی نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ چراغ پاسوان اور ان کے چچا پشوپتی ناتھ پارس کے درمیان جو دوریاں اور اختلافات ہیں ان کو کس طرح سے ختم کیا جائیگا یہ بھی ابھی واضح نہیں ہوا ہے ۔ ان کے درمیان شدید اختلافات اب بھی برقرار ہیں اور کوئی بھی اس میں لچکدار موقف اختیار کرنے تیار نہیں ہے ۔
جس طرح سے ملک بھر میں بی جے پی اپنے مرکزی اقتدار کے ذریعہ طاقت کا بیجا استعمال کر رہی ہے اور ایک مخصوص پروپگنڈہ چلاتے ہوئے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے وہی کوشش بہار میں بھی شروع کردی گئی ہے ۔ تاہم بہار کے عوام کو اس تعلق سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ووٹ کا حقیقی حقدار کون ہے ۔ ایک جماعت سے اتحاد اور دوسری کے ساتھ وقتی دوستیاں بہار کے عوام کا مزاج نہیں ہونا چاہئے ۔ نتیش کمار کے سیاسی مزاج میں ٹہراؤ کی کمی ہے جبکہ بہار کے عوام کو گذشتہ دو دہوں سے جاری ان کے اقتدار اور حکومت کی کارکردگی کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا ۔