بیرون ملک تقاریر پر بھی ڈوغلا پن

   

سینئر کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا پر بی جے پی پوری کوشش کے باوجود کوئی تنقید نہیںکرپائی ۔ پارٹی نے یاترا کو نشانہ بنانے کی ابتداء میں کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش الٹی پڑنے لگی تھی اور اسی وجہ سے بی جے پی نے عملا اس یاترا پر تبصرہ کرنے سے گریز کرلیا تھا ۔ کوئی ریمارک یا تبصرہ نہیں کیا جا رہا تھا ۔ بی جے پی کی ساری کوشش یہی تھی کہ راہول گاندھی اپنی یاترا کے دوران تقاریر میںکوئی موقع فراہم کریں تاکہ انہیں نشانہ بنایا جاسکے اور ٹی وی چینلس پر بیٹھ کر ان کا مذاق اڑایا جاسکے ۔ تاہم بی جے پی کی خواہش پوری نہیں ہوسکی اور راہول گاندھی نے ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کیا ۔ بھارت جوڑو یاترا مکمل ہوگئی ۔ راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میںحکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اڈانی مسئلہ پر راست وزیر اعظم کو گھیرنے کی کوشش کی ۔ بی جے پی نے اس پر جواب دینے کی کوشش کی لیکن وہ راہول گاندھی پر اثرا نداز نہیں ہوسکی ۔ کانگریس کا پلینری سشن دو دن کیلئے چھتیس گڑھ میںمنعقد ہوا ۔ اہم فیصلوںکے موقع پر گاندھی خاندان پلینری سے دور رہا ۔ وہاں جوفیصلے کئے گئے ان پر بھی بی جے پی کوئی تنقید نہیںکر پائی ۔ حالانکہ وہ موقع کی تلاش میں تھی ۔ راہول گاندھی کیمبرج یونیورسٹی گئے ۔ وہاں انہوں نے ایک لیکچر دیا ۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں جس طرح کے حالات پیدا کئے جا رہے ہیںان کی وجہ سے جمہوریت خطرہ میں پڑگئی ہے ۔ بی جے پی نے اس کو اپنے لئے ایک موقع غنیمت سمجھا اور راہول گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنانے میںجٹ گئی ۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی نے بیرون ملک اس طرح کا ریمارک کرتے ہوئے ملک کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے اور ہندوستان کے وقار کو مجروح کیا ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ راہول گاندھی نے ملک کے خلاف کوئی ریمارک نہیں کیا ہے ۔ انہوںنے جو تبصرہ کیا ہے وہ موجودہ حکومت کے خلاف تھا ۔ ان کا کہنا یہی تھی کہ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جن کے نتیجہ میںجمہوریت کھوکھلی ہو رہی ہے اور اس کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ریمارک حکومت کے خلاف تو تھا لیکن ملک کے خلاف نہیں تھا ۔
اس کے علاوہ بیرون ملک کی جانے والی بیان بازیوںپر بی جے پی نے دوہرا معیار اختیار کیا ہے اور ڈوغلا پن کر رہی ہے ۔ کئی مواقع ایسے آئے تھے جن میں خود ملک کے وزیر اعطم نے بیرون ملک ایسے تبصرے کئے جو شائد وزیر اعظم کو نہیں کرنے چاہئے تھے۔ وزیر اعظم نے بیرونی سرزمین پر کہا تھا کہ ہندوستان کی ترقی کیلئے گذشتہ سات دہوںمیں کچھ نہیںکیا گیا ۔ یہ گذشتہ سات دہوںمیںہونے والی ترقی سے عملا انکار تھا ۔ اس کے علاوہ جب ہندوستان میں نوٹ بندی لاگو کی گئی تھی وزیر اعظم نے جاپان کے دورہ کے موقع پر ریمارکس کئے تھے اور ایک طرح سے انہوںنے ہندوستانی عوام کامذاق اڑانے کی کوشش کی تھی ۔ وزیر اعظم کے ان ریمارکس پر اس وقت بھی تنقیدیں کی گئی تھیں۔ ملک کی نمائندگی ملک کا ہر شہری کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری ملک کے عوام کی نمائندگی کرنے والے وزیرا عظم کی ہوتی ہے ۔ وزیراعظم خود بھی اسطرح کے ریمارکس کرتے ہیں تودوسروںپر تنقیدیں کرنے کا بی جے پی کوکوئی حق نہیںپہونچتا ۔ یہ ایک طرح سے سیاسی ڈوغلا پن اور دوہرے معیارات ہیںجو بی جے پی محض راہول گاندھی کی سیاسی مخالفت میں اختیار کر رہی ہے ۔ جس طرح سے راہول گاندھی کی ٹی شرٹ کو نشانہ بنانے کی بی جے پی نے بھارت جوڑو یاترا کے موقع پر کوشش کی تھی اور کانگریس نے اس کا جواب دیا تھا اسی طرح کا جواب اب بھی دیا جاسکتا ہے ۔ جس بات کیلئے راہول گاندھی پر تنقید کی جا رہی ہے وہی کام وزیر اعظم نے بھی کیا تھا ۔
سیاست میں اختلاف رائے عام بات ہے اور یہ ہندوستانی جمہوریت کی انفرادیت ہے کہمختلف نظریات رکھنے والے سیاستدان ملک کی نمائندگی قومی اور بین الاقوامی فورمس میں کرتے ہیںاورملک کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ہندوستان کی توہین یا ہتک ملک کا کوئی شہری نہیں کرسکتا ۔ چاہے وہ کسی بھی نظریہ کا حامل ہو۔ اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کو بھی دوہرے معیارات اختیار کرنے یاڈوغلا پن اختیار کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن ریمارکس کا حوالہ دیا جا رہا ہے ان سے زیادہ دوہرے معیارات سے ملک کا وقار متاثر ہوسکتا ہے اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا سب کی ذمہ داری بنتی ہے ‘ کسی کو اس استثنی نہیں مل سکتا ۔