بینکوں کے دیوالیہ کا ذمہ دار کون

   

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
بینکوں کے دیوالیہ کا ذمہ دار کون
ہندوستان میں خانگی شعبہ کے بینکس یکے بعد دیگر عملا دیوالیہ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دھیرے دھیرے سرکاری بینکوں کے تعلق سے بھی اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ مہاراشٹرا میں پی ایم سی بینک میں گھٹالہ اور اسکام کے نتیجہ میں ہزاروں کھاتہ داروں کے سینکڑوں کروڑ روپئے ڈوب گئے ۔ بینک کے کھاتہ دار آج بھی اس تعلق سے فکرمند ہیں اور وہ در در بھٹک رہے ہیں تاکہ انہیں اپنی رقومات واپس مل سکیں۔ ابھی پی ایم سی بینک کا معاملہ سنبھل نہیں پایا تھا اور اس کے کھاتہ داروں کو رقومات واپس نہیں مل پائی تھیں کہ اب یس بینک کے حالات بگڑ گئے ۔ یس بینک کی مارکٹ قدر و قیمت گھٹ کر صفر ہوگئی ہے اور اس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں کھاتہ داروں کے ہزاروں کروڑ روپئے اب ڈوبنے کے قریب پہونچ گئے ہیں۔ بینک کی جانب سے کھاتہ داروں کو ماہانہ صرف 50 ہزار روپئے کی نکالنے کی اجازت دی گئی ہے اور وہ بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ بینک کے اے ٹی ایم خالی ہوگئے ہیں۔ نیٹ بینکنگ ایپس سے اس بینک کی رقومات منتقل نہیں ہو پا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت اور ریزرو بینک کی جانب سے حسب روایت محض تسلی کے دو الفاظ ہی ادا کئے جا رہے ہیں۔ ایس بی آئی اب اس بینک میں حصہ داری خریدنے کی باتیں کر رہا ہے لیکن جو حقائق ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ خود ایس بی آئی کی حالت مستحکم نہیں ہے اور اس کے ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض این پی اے کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ خود بینکوں نے کارپوریٹ تاجروں کو ہزاروں کروڑ روپئے قرض فراہم کیا اور پھر انہیں دیوالیہ کا شکار ہوکر سٹلمنٹ کی اسکیم سے واقف کروایا اور عوامی رقومات کا تغلب کیا گیا ۔ اگر یہ حساب دیکھا جائے تو لاکھوں کروڑ روپئے کے این پی ایز بن گئے ہیں۔ جو عہدیدار پہلے بینکوں کے سربراہ یا ذمہ دار ہوا کرتے تھے وہ اب کارپوریٹس کو قرض جاری کرنے کے بعد ان کمپنیوں کے ذمہ دار عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔ اس سے سارے معاملہ کا کچا چٹھا سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی کہ کس طرح سے بینکوں کو لوٹا گیا ہے اور منظم سازشیں رچی گئیں۔
کہا جا رہا ہے کہ یس بینک کی حالت اچانک ہی خراب نہیں ہوئی ۔ اس کے علاوہ بینک سے رقم نکالنے پر تحدیدات سے ایک دن قبل ہی گجرات کی ایک کمپنی نے ڈھائی سو کروڑ سے زیادہ کی رقم بینک سے نکال لی تھی ۔ اسی طرح بینک کی جانب سے قرضہ جات بھی جاری کئے گئے تھے ۔ اچانک ہی بینک کی حالت خراب ہوگئے ۔ اس کے شئیرس کی قیمت تقریبا صفر ہوگئی ہے اور عوامی رقومات ڈوبتی نظر آر ہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی مالیاتی ادارہ یا بینک حکومت اور ریزرو بینک کی منظوری کے بغیر نہ قائم ہوسکتا ہے اور نہ ان کی شرائط سے ہٹ کر کوئی کام کرسکتا ہے ۔ اس صورت میں بینکوں کے ڈوبنے اور عوامی رقومات کے خرد برد کی ذمہ داری بھی حکومت اور ریزرو بینک پر عائد ہوتی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ نہ ریزرو بینک اور نہ مرکزی حکومت اس کی ذمہ داری قبول کرنے تیار ہیں۔ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ سامنے آتا ہے محض زبانی جمع خرچ کیلئے کچھ دلاسے اور تسلی آمیز بیانات دئے جاتے ہیں اور عوام کو در در کی ٹھوکریں کھانے یا پھر عدالت کے چکر لگانے کیلئے ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ پھر انتظار کسی اور بینک گھوٹالے کا شروع ہوجاتا ہے ۔ ریزرو بینک یہ تسلی دیتا ہے کہ عوام کی رقومات محفوظ ہیں ۔ جب عوام کی رقومات محفوظ ہیں تو پھر انہیں عوام ہی کو واپس کرنے سے گریز کیوں جاتا ہے یہ ناقابل فہم ہے ۔
ہندوستان کی معیشت پہلے ہی ابتر صورتحال کا شکار ہے ۔ معاشی سست روی نے معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اس کے علاوہ ہزاروں سینکڑوں کروڑ روپئے کے قرض چند مٹھی بھر کارپوریٹس کو سونپ دئے گئے ہیں اور ان کی واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ یہ رقومات بھی عوام کی جیبوں ہی سے لوٹی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اب اگر بینکوں کی حالت ایسی ہوجائے کہ وہاں بھی رقومات محفوظ نہ ہوں اور وہاں بھی لوٹ کھسوٹ ہوتی رہے ۔ سازباز کرتے ہوئے کارپوریٹس ہی کو فائدہ پہونچایا جائے تو ملک میں سارا بینکنگ نظام ہی ٹھپ ہوکر رہ جائیگا ۔ دوسرے اداروں کی طرح بینکوں پر بھی عوام کو اب اعتماد نہیں رہ گیا ہے ۔ اس اعتماد کے خاتمہ کیلئے بھی حکومت اور ریزرو بینک ہی ذمہ دار ہیں۔ ریزرو بینک اور حکومت کو اس اعتماد کی بحالی کیلئے اور عوامی رقومات کے تحفظ کیلئے سخت اقدامات کرنے ہونگے ۔