بی آر ایس و مجلس میں کشیدگی ، حقیقت یا فسانہ،سیاسی حلقوں میں نئی بحث

,

   

کے ٹی آر کے جواب پر مجلسی قیادت کی خاموشی معنی خیز، مسلمانوں کی تائید کیلئے کے سی آر نئی حکمت عملی میں مصروف
حیدرآباد۔/3 جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی کے مجوزہ انتخابات میں برسراقتدار بی آر ایس کیلئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تائید کا حصول ایک چیلنج بن چکا ہے۔ انتخابات سے عین قبل گذشتہ 9 برسوں تک وفادار حلیف کا رول ادا کرنے والی مجلس کے اچانک یو ٹرن نے چیف منسٹر کے سی آر کو اُلجھن میں مبتلاء کردیا ہے۔ مجلس کی جانب سے حکومت پر وعدوں کی عدم تکمیل پر سوالات اور شہر کے علاوہ اضلاع میں بھی انتخابات میں حصہ لینے کے اشاروں نے کے سی آر کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مجلس کے بغیر مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کریں۔ گذشتہ دنوں صدر مجلس اسد اویسی نے اضلاع میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور مسلمانوں سے متعلق کئی اہم مسائل کی عدم یکسوئی پر سوالات کئے۔ انہوں نے اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کی تائید کے مسئلہ پر غیر واضح موقف ظاہر کرتے ہوئے انتباہ دیا کہ ان کی تائید کو بی آر ایس اپنا حق نہ سمجھے۔ مجلس کے اچانک یو ٹرن پر پارٹی کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ نے سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ بی آر ایس مسلمانوں کی تائید کے سلسلہ میں صرف مجلس پر انحصار نہیں کرتی اور تمام مسلمان مجلس کو ووٹ نہیں دیتے۔ کے ٹی آر نے مجلس کو چیلنج کیاکہ وہ اپنی پسند کی تمام نشستوں پر قسمت آزمائی کرے۔ کے ٹی آر کے جواب پر مجلسی قیادت کی خاموشی معنی خیز تصور کی جارہی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کے سی آر نے مسلمانوں کی تائید کے حصول کیلئے مجلس کے بغیر حکمت عملی طئے کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں انتخابی اُمور کے ماہرین سے تبادلہ خیال کیا اور مجلس کی اپیل کی صورت میں مسلمانوں کے حاصل ہونے والے ووٹ فیصد کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ وہ اضلاع میں اس بات کا سروے کرانے میں مصروف ہیں کہ مجلس کی مخالفت سے بی آر ایس کو کتنے فیصد مسلم ووٹوں کا نقصان ہوگا۔ کے سی آر کو یقین ہے کہ تلنگانہ کے مسلمان فوری طور پر بی آر ایس سے دوری اختیار نہیں کریں گے کیونکہ تلنگانہ میں کئی فلاحی اسکیمات کے علاوہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں کو کچلتے ہوئے ریاست کو فسادات سے پاک بنایا گیا ہے۔ کے سی آر انتخابات سے عین قبل مسلمانوں کیلئے بعض نئی اسکیمات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر کو یقین ہے کہ کرناٹک کے نتائج کا تلنگانہ پرکوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اسی دوران سیاسی مبصرین اور عام مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ آیا بی آر ایس اور مجلس میں کشیدگی حقیقی ہے یا پھر کسی ’ نورا کشتی‘ کا حصہ ہے۔ انتخابات سے قبل مسلمانوں کی سیاسی نبض کا پتہ چلانے کیلئے مجلس کے ذریعہ مخالفت کا کارڈ کھیلا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں پر یہ تاثر قائم کیا جاسکے کہ ان کی حقیقی ہمدرد مجلس ہے اور الیکشن سے قبل دوبارہ بی آر ایس کی تائید کرتے ہوئے مسلمانوں کو کانگریس کے قریب جانے سے روکا جائے۔ مبصرین کو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ مجلسی قیادت بیک وقت بی آر ایس اور کانگریس دونوں کی مخالفت کررہی ہے۔ اگر کانگریس کی طرف جھکاؤ ہوتا تو صرف کے سی آر حکومت پر تنقید کی جاتی۔ اسی دوران سوشیل میڈیا پر مجلسی قائدین کے بیانات وائرل ہورہے ہیں جن میں واضح طور پر تضاد دکھائی دے رہا ہے۔ ایک تازہ ویڈیو وائرل ہوا جس میں صدر مجلس اسد اویسی سکریٹریٹ کی مساجد کی شہادت اور ابھی تک تعمیر مکمل نہ ہونے پر تنقید کررہے ہیں تو دوسری طرف فلور لیڈر اکبر اویسی خوبصورت مساجد کی تعمیر کا دعویٰ کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بی آر ایس اور مجلس کے تعلقات کا حقیقی اندازہ آئندہ دو ماہ بعد ہوگا جب الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول جاری کرے گا۔ اس وقت تک دونوں میں بظاہر اختلافات دکھائی دیں گے۔ اسی دوران وزیر داخلہ محمود علی نے الیکٹرانک میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صدر مجلس کے موقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ مسلمان کے سی آر حکومت سے خوش ہیں اور انتخابات میں بی آر ایس کی تائید کریں گے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مجلس اختلافی موقف اختیار کرتی ہے تو پھر اسے اپنے روایتی 7 حلقوں میں بی آر ایس کے مضبوط امیدواروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عام طور پر پارٹی کمزور امیدواروں کو مجلس کے خلاف میدان میں اُتارتی ہے۔ر