بی جے پی اور 2024 کیلئے دعوی

   

وزیر داخلہ امیت شاہ کا دعوی ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی کو 2024 میں ایک بار پھر اقتدار حاصل ہوگا ۔ امیت شاہ نے گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان نتائج سے واضح ہوگیا ہے عوام 2024میں ایک بار پھر نریندر مودی کو وزیر اعظم منتخب کریں گے ۔ امیت شاہ اس سے قبل بھی یہ دعوی کرچکے ہیں کہ بی جے پی ملک پر پچاس سال تک حکمرانی کرے گی ۔ حالانکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر پانچ سال میں عوام کسی کو اقتدار سونپتے ہیں اورا پنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے کسی کو اقتدار سے بیدخل بھی کرتے ہیں۔ ویسے تو ہر سیاسی جماعت اقتدار کی دعویداری پیش کرتی ہے اور عوامی تائید حاصل کرنے کا دعوی کرتی ہے لیکن بی جے پی جس طرح سے دعوی کرنے لگی ہے وہ قدرے مختلف کہے جاسکتے ہیں۔ ویسے تو کچھ گوشوں کی جانب سے بی جے پی پر انتخابی دھاندلیوں اور ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری کے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں اور کچھ گوشوں کی جانب سے بیالٹ پیپر پر انتخابات کروانے کے مطالبات بھی ہو رہے ہیںلیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی شمالی ہندوستان میں عوامی تائید میں کمی آتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی شائد 2019 کی اپنی انتخابی کارکردگی کو دہرانے میںکامیاب نہ ہونے پائے ۔ بہار میں بی جے پی کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اترپردیش میں بھی بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں کمی کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ اسی طرح راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جس طرح بی جے پی نے کلین سویپ کیا تھا 2024 میںشائد وہ صورتحال رہنے نہیں پائے گی ۔ بی جے پی کو ان ریاستوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کا مظاہرہ کمزوری والا ہی ہوسکتا ہے ۔ گجرات کے تعلق سے حالانکہ بی جے پی بہت زیادہ پرامید ہے کہ وہاں کلین سویپ ہوگا تاہم عین وقت تک اس تعلق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ عوام کے موڈ اور ان کے ووٹ کا کسی کو بھی اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
بی جے پی کو دہلی میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ سات حلقوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسے وہاں بھی نقصان ہوگا ۔ جنوب میں بی جے پی کو صرف تلنگانہ سے کچھ امیدیں بندھی ہیں کیونکہ یہاں اس کے چار ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ 2024 میں یہاں بھی بی جے پی کو معمولی ہی صحیح کچھ نقصان ضرور ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کو مہاراشٹرا میں بھی توقعات کے مطابق کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ اس بار وہاں کانگریس ۔ این سی پی اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے مل کر انتخابی مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور ریاستوں میں بھی مقامی سطح پر اتحاد ہونے لگے ہیںاور بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ہند پر بی جے پی نے توجہ کر رکھی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ شمالی ریاستوں میں اسے جو نقصان ہوسکتا ہے اس کی بھرپائی اور پابجائی جنوبی ہند سے کی جاسکے ۔ تاہم جنوبی ہند میں کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو جتنی نشستیں حاصل ہیں کہا جا رہا ہے کہ اس تعداد میں بھی کمی آسکتی ہے کیونکہ کانگریس کے حق میں اچھی لہر چل رہی ہے ۔ کیرالا اور ٹاملناڈو کے علاوہ آندھرا پردیش کے انتخابی منظرنامہ میں بی جے پی کا کوئی خاص وجود نہیں ہے ۔ بی جے پی نے ان تین ریاستوں میں بمشکل ہی اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کیلئے 2024 کی کامیابی آسان نہیں کہی جاسکتی ۔
امیت شاہ ہوں یا کئی اور بی جے پی قائدین ہوں سبھی کی جانب سے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن صورتحال کیا ہوسکتی ہے اس تعلق سے ابھی سے کچھ کہنا آسان نہیں ہوگا ۔ اپوزیشن جماعتوں کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ یہ سب اپنے طور پر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں سخت مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں اور بی جے پی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا جائیگا ۔ ریاستی سطح پر علاقائی جماعتیں بھی کمر کس رہی ہیں اور بی جے پی کو شکست سے دو چار کرنے کئی جماعتیں متحد بھی ہونے والی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے دعوے کس حد تک درست ثابت ہونگے یہ انتخابی نتائج ہی بتاسکتے ہیں۔