بی جے پی جنوب میں ناکامی کی پابجائی نئی حد بندی سے کرے گی

   

آنند کو چوکوڈی
ٹھائیس مئی کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب ہمارے جمہوری ملک کے لئے ایک تاریخی لمحہ تھا اس کے باوجود افتتاحی تقریب میں مسابقت اپنی برتری کا رجحان اور بغض و عداوت کھلے عام دیکھی گئی۔ کئی ضد و ہٹ دھرمی تھی تو کہیں غرور و تکبر جھلک رہا تھا۔ حکمراں بی جے پی اور مذہبی اپوزیشن دونوں میں سے کوئی بھی اپنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے تیار نہیں تھے۔ اگر بی جے پی نے اس موقع کو وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے بطور پروپگنڈہ استعمال کیا تو دوسری طرف ملک کی بڑی اور اہم اپوزیشن جماعتوں نے تقریب میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی غیر حاضری پر بطور احتجاج شرکت نہیں کی یعنی افتتاحی تقریب کا باضابطہ بائیکاٹ کیا (اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کروایا جائے لیکن حکومت نے وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں اس کا افتتاح کروایا۔ حد تو یہ ہیکہ اسپیکر اوم برلا کو بھی تقریب میں برائے نام رکھا گیا) ۔ برطانیہ کے شاہ چارلس سوم کی رسم و تقریب تاجپوشی کی یادیں عوام کے ذہنوں میں ہنوز تازہ ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے افتتاحی تقریب کو رسم و تقریب تاجپوشی میں تبدیل کردیا۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کی زیر قیادت مودی حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لئے بھی استعمال کیا۔ بی جے پی نے سیگول (سنہری چھڑی) کو لیکر عجیب و غریب دعوے کئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سنہری چھڑی ہندوستان کی آزادی پر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو پیش کی گئی تھی۔ بی جے پی نے اسے اقتدار کی منتقلی کی علامت قرار دیا۔ اگر دیکھا جائے تو پارلیمانی نشستوں کی نئی حد بندی اور نشستوں میں اضافہ ملک کے سیاسی منظر نامہ میں اہم تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2026 میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حدبندی کا اشارہ دیا ہے (یہ اور بات ہیکہ 2024 کے عام انتخابات میں کس کو کامیابی ملتی ہے کس کو شکس، وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر امور خارجہ مسٹر جئے شنکر بار بار یہ دعوے کررہے ہیں کہ 2024 میں بی جے پی مودی کو ہی کامیابی ملے گی) جہاں تک لوک سبھا کی موجودہ نشستوں کا سوال ہے 1951-52 کے عام انتخابات سے 1971 کے عام انتخابات تک پارلیمانی نشستوں میں اضافہ کیا گیا اور یہ اضافہ ابادی کی بنیاد پر کئے گئے ۔ تاہم سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے 1976 میں 42 ویں ترمیم مدون کرتے ہوئے پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کے عمل کو 25 برسوں کے لئے منجمد کردیا اور پھر اٹل بہاری واجپائی کی بطور وزیر اعظم میعاد کے دوران 84 ویں ترمیم کے ذریعہ سال 2001 میں نئی حد بندی کے عمل کو مزید 25 برسوں کے لئے آگے بڑھادیا گیا اور جب 2019 میں منٹرل وسٹا ری ڈیولپمنٹ پراجکٹ کے بارے میں اعلانات کئے گئے (اس پراجکٹ میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت بھی شامل تھی) پھر پارلیمانی نشستوں کی نئی حد بندی کا مسئلہ زور پکڑنے لگا۔ اس کی کئی وجوہات بھی بتائی جارہی ہیں ایک وجہ یہ بھی ہیکہ بی جے پی کو آئندہ 50 برسوں تک ہندوستان پر حکمرانی کرنے کا تیقن ہے ۔ اس ضمن میں سال 2018 میں ہی امیت شاہ نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ بی جے پی آئندہ 50 برسوں تک ملک پر حکومت کرے گی الغرض بی جے پی کو 2024 کے عام انتخابات میں بھی کامیابی ملتی ہے تو پھر وہ پارلیمانی نشستوں میں اضافہ کے لئے اپنے مفادات و سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئیل 2026 میں حلقوں کی نئی حد بندی بڑے پیمانے پر کرسکتی ہے اور بی جے پی یہ اس لئے کرے گی کہ مک کی ہندی پٹی (ہندی بولنے والی ریاستوں) میں جہاں سے 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے اپنی 60 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں ان ریاستوں میں اسے سیٹوں میں اضافہ سے زبردست فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اترپردیش جہاں سے 80 ارکان پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوئے ہیں نئی حد بنید کے بعد ان کی تعداد 143 ہو جائے گی جبکہ کیرالا جیسی جنوبی ہند کی ریاست میں پارلیمانی نشستوں کی تعداد 20 ہی رہے گی۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے 50 برسوں کے دوران آبادی پر قابو پانے میں جنوبی ہند کی ریاستوں میں سرکاری منصوبوں پر بہتر انداز میں عمل آوری کی گئی جبکہ ہندی پٹی (شمالی ہند کی ریاستوں) میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حد بندی سے جنوبی ہند کی ریاستوں کو کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بظاہر اس کا اندازہ 15 ویں فینانس کمیشن سے لگایا جاسکتا ہے جس نے جنوبی ریاستوں کو مالیاتی حصہ داری میں کس طرح زوال سے دوچار کیا۔
اب تو ایسا لگ رہا ہیکہ حد بندی کے معاملہ میں جنوبی ریاستوں کو آبادی سے کنٹرول سے متعلق ان کی کامیابی کی سزا دی جارہی ہے کیونکہ شمالی ہند کی ریاستوں کے برخلاف جنوبی ہند کی ریاستوں میں آبادی پر بڑی سختی سے کنٹرول کیا گیا جس کا خمیازہ ان ریاستوں کو آنے والے برسوں میں بھگتنا پڑے گا جب پارلیمانی حلقوں کی حد بندی ہوگی۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے، بے شمار زبانوں کے بولنے والے، متعدد تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اگر ان سے مرکزی حکومت اس طرح کا تعصب برتے گی یا جانبداری کا مظاہرہ کرے گی تو پھر یہ علیحدگی پنسد تحریکوں کے آغاز کا باعث بن سکتی ہے جیسے پیر پار ای وی راماسوامی ڈراویڈا ناڈو کا احیاء اس کی مثال ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تاملناڈو کے لوک سبھا پیٹس کو 39 تک محدود کردیا گیا (1967 کے انتخابات میں 41 سے گھٹاکر ان نشستوں کی تعداد 39 کردی گئی تھی) جو غیر واجبی اور غیر منصفانہ ہے ۔ پھر اس بات کی تجویز پیش کی گئی ریاست تاملناڈو کو اس کی پابجائی 5600 کروڑ روپے کا معاوضہ دیا جائے اور ساتھ ہی ریاست کے لئے راجیہ سبھا کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے اب یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ آیا بی جے پی امریکی سیٹ کی طرز باخطوط پر تمام ریاستوں کو راجیہ سبھا کی مساوی نشستیں فراہم کرے گی؟ کیونکہ ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں کو دی گئی راجیہ سبھا نشستوں کی تعداد میں بھی زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ ایسے میں فی الوقت بی جے پی حکومت سے اس طرح کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔
بی جے پی کے مقاصد : ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے دفی الوقت اس کی تمام تر توجہ 2024 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات پر مرکوز ہیں۔ یہ ایسے انتخابات ہیں جن میں کامیابی کا مطلب اپنے بڑے عزائم و ایجنڈہ کی تکمیل کی سمت پہلا قدم ہوگا۔ بی جے پی کو 2019 کے عام انتخابات میں شمالی ہند سے جو بھی نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی نشستوں کی تعداد میں خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اس لئے اب وہ جنوب میں زیادہ سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے۔ بی جے پی سردست تاملناڈو پر بھی بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہی ہے چنانچہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ اقدامات سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اس نے خود کو ایسا لگتا ہے کہ کاسی، ٹامل سنگھم کے فالوور کے طور پر ابھارنا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی تاملوں میں ہندو ضمیر جگانے کے ایک بڑے آئیڈیا پر کام کررہی ہے اور خاص طور پر تاملناڈو میں شیو کے ماننے والوں کو کرناٹک میں لنگایت کو قریب کیا۔ اسے قریب کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ دراصل تاملناڈو میں تامل۔ برہمن بنیاد کو مستحکم کرنا ہے۔ اسی طرح وہ کیرالا میں چرچ سے قربت اختیار کرنے میں بھی مصروف ہے۔ دوسری طرف بی جے پی تلنگانہ میں سب سے بڑی اپوزیشن کے طور پر ابھرنے کا عزم رکھتی ہے جبکہ آندھرا پردیش میں 2024 لوک سبھا انتخابات کے لئے پارٹی اتحاد تشکیل دینے پر بھی غور کررہی ہے تاہم کرناٹک میں شکست کے بعد اس کے عزائم میں کئی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ بہرحال اگر بی جے پی جنوب نہیں جیت سکتی تو اس کی پابجائی مستقبل میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی سے کرسکتی ہے۔