بی جے پی کو یو پی انتخابات کی فکر

   

ایک دن پوچھتی پھرے گی حیات
اہلِ دل کِس نگر میں رہتے ہیں
بی جے پی کو یو پی انتخابات کی فکر
سارے ملک میں کورونا سے عوام پریشان ہیں۔ کہیں لوگ دواخانوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں تو کہیں آکسیجن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کہیں دو وقت کی روٹی کیلئے عوام پریشان ہیں تو کہیں ادویات کی قلت نے جینا دوبھر کردیا ہے ۔ اس صورتحال میں بھی مرکزی حکومت کو سیاسی مفادات کی فکر لاحق ہے ۔ ملک میں کورونا سے لڑ رہے عوام کو راحت پہونچانے کی بجائے بی جے پی ابھی سے اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی فکر کرنے لگی ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی نے ابھی سے تیاریاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ویسے بھی کورونا بحران میں عوام کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حکومت کی جو ناکامیاں اور نا اہلیاں رہی ہیں ان کی وجہ سے بی جے پی پریشان ضرور ہے ۔ اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کل بی جے پی اور سنگھ پریوار کی اعلی قیادت کا ایک اجلاس منعقد ہوا ۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ ‘ یو پی میں بی جے پی کے تنظیمی انچارچ سنیل بنسل ‘ بی جے پی صدر جے پی نڈا کے علاوہ آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ ہس بولے نے اجلاس میںشرکت کی ۔ اس اجلاس میںکورونا وباء کی وجہ سے عوام میں پیدا ہوئی ناراضگی ‘ اس سے بی جے پی کے انتخابی امکانات پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ۔ جو حقیقی صورتحال ہے اس پر بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلی قیادت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ کے قائدین نے عوامی غیض و غضب سے بچنے اور پارٹی اور حکومت کی امیج کو بہتر بنانے کے امکانات پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی وباء نے بی جے پی کی شبیہہ متاثر کردی ہے ۔بی جے پی نے جس طرح سے میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے ایک بہتر حکمرانی والی شبیہہ بنائی تھی کورونا کی وباء نے اسے متاثر کرکے رکھد یا ہے ۔ عوام میں حکومت کے تعلق سے غصہ پایا جاتا ہے ۔ شدید ناراضگی ہے اور یہ برہمی اب واضح طور پر دکھائی بھی دینے لگی ہے ۔ بی جے پی کو اس کا احساس ہو رہا ہے ۔
اترپردیش میں کورونا کی صورتحال انتہائی سنگین بتائی جا رہی ہے ۔ حالانکہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں اس صورتحال کو موثر ڈھنگ سے پیش نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی عوامی جذبات کی عکاسی کی جا رہی ہے ۔ صرف ایکا دوکا واقعات کو پیش کرنے پر ہی اکتفاء ہو رہا ہے لیکن حقیقی صورتحال سنگین ہے ۔ یہاں لوگ کسی بھی طرح کی بنیادی طبی سہولت سے محروم ہیں۔ نہ دواخانوں میں کوئی سہولت ہے اور نہ ہی انہیں بستر مل رہے ہیں۔ آکسیجن بھی دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی ایمبولنس کی سہولت ہی مل پا رہی ہے ۔ لوگوں کو مرنے پر چتا جلانے کیلئے شمشان میں تک جگہ دستیاب نہیں ہے ۔ شمشان میں نمبر لگانے کیلئے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ جب نمبر آجائے تو لکڑی تک دستیاب نہیں ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں بالکل پہلی مرتبہ گنگا کے کنارے نعشیں تیرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ریت میں دبی سینکڑوں نعشیں اب ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ تیرتی ہوئی نعشیں اترپردیش سے بہار تک سفر کرچکی ہیں اور وہاں عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور اس کیلئے مرکز کی نریندر مودی کی حکومت اور اترپردیش کی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہی ذمہ دار ہے ۔ یہ لوگ عوام کو زندہ رہنے کیلئے نہ ادویات کا انتظام کر پا رہے ہیں اور نہ یہ مرنے کے بعد نعشوں کو چتا دکھانے کی کوئی سہولت فراہم کی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال نے بی جے پی کو حقیقی معنوں میںمتفکر کردیا ہے اور بی جے پی ابھی سے اس کا جائزہ لینے لگی ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے ہندوستان میں لوگ کورونا سے پریشان ہیں۔ ساری صورتحال سے خود حکومت اچھی طرح واقف ہے ۔ اس میں عوام کو راحت پہونچانے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے پر غور کرنے کی بجائے بی جے پی آئندہ سال کے انتخابات کی فکر کرنے لگی ہے ۔ عوام کو آکسیجن فراہم کرنے یا ایمبولنس کی سہولت فراہم کرنے کی بجائے اترپردیش کی حکومت بچانے اورحکومت کی شبیہہ کو بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ امیت شاہ جو بنگال انتخابات کے بعد کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے اچانک اس اجلاس میں شریک رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے پاس عوام کی مشکلات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے اور وہ صرف انتخابات میں کامیابی کو ہی ترجیح دیتی ہے ۔