بی جے پی کی انتخابی تیاریاں

   

سامنے دریا کے اک قطرہ کی قسمت کچھ نہیں
مل گیا جب قطرہ قطرہ ایک دریا ہوگیا
مرکز میں لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ بی جے پی نے اپنی انتخابی تیاریوں کا آعاز کردیا ہے ۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے کئی طرح کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ پارٹی کے ذمہ دار قائدین امیدواروں کے انتخاب کیلئے بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس سلسلہ میں مشاورتوں اور اجلاسوں کا بھی آغاز ہوچکا ہے ۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں انتخابی تیاریوں کا جائزہ لینے اجلاس ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ پارٹی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اپنے اپنے طور پر مصروف ہوچکے ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی یونٹوں کو بھی اس معاملے میں سرگرم کردیا گیا ہے ۔ ریاستی قائدین بھی اپنے آپسی مشوروں کے مطابق امیدواروں کو قطعیت دینے یا ان کے ناموں کی سفارش کرنے کی تیاری میں جٹ گئے ہیں۔ ریاستی یونٹوں کی سفارشات پر مرکزی کمیٹی اور قائدین کے غور کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ یہ ساری سرگرمیاں ایک عام نوعیت کی سیاسی جماعت کی سرگرمیاںہیں تاہم بی جے پی نے اپنی اصل انتخابی تیاریاں در پردہ شروع کر رکھی ہیں جن کے ذریعہ ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ سارے ملک میںمسلمانوں کے ووٹ اور سکیولر ذہن رکھنے والے ووٹرس کے ووٹ تقسیم کئے جائیں تاکہ اسے سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے اور وہ لگاتار تیسری معیاد کیلئے مرکز میں اقتدار حاصل کرسکے ۔ بی جے پی نے اس کیلئے کئی منصوبے تیار کئے ہیں ۔ یہ منصوبے بہت پہلے سے تیار کردہ ہیں اور ان کے ذریعہ بی جے پی اپوزیشن جماعتوں کو شکست دینے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ اس کام کیلئے بی جے پی نے اپنے آلہ کار عناصر کو بھی سرگرم کردیا ہے ‘۔ وہ بھی سارے ملک میں اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہونچانے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ بیشتر حلقوں کا یہ تاثر ہے کہ یہ عناصر بی جے پی کے ہاتھوں کھلونا بننے کیلئے مجبور ہیں۔ خود قانونی کارروائیوں سے بچنے اور اپنے کالے کرتوتوں کو چھپائے رکھنے کیلئے وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے آگے کوئی اور چارہ کار نہیںہے ۔
بی جے پی ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان عناصر کو لگاتار انتخابی کامیابیوں کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے ملک میں کئی مقامات پر مقامی سطح پر مسائل کو ہوا دینے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے ۔ علاقائی جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ مذہبی جذبات کا استحصال تو بی جے پی کا وطیرہ رہا ہی ہے ۔ وہ نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کی توجہ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے ہٹانے میں اکثر و بیشتر کامیاب رہی ہے ۔ کچھ ریاستوں میں اس کی یہ کوششیں ناکام بھی رہی ہیں لیکن خاص طور پر اترپردیش ‘ گجرات ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور بہار میں بی جے پی اپنے اس طرح کے منصوبوںمیں اکثر و بیشتر کامیاب رہی ہے ۔ ملک میںانڈیا اتحاد کی جماعتوں میں ہو رہے اتفاق رائے کو دیکھتے ہوئے بی جے پی متفکر ضرور ہے ۔ حالانکہ وہ بلند بانگ دعوے کر رہی ہے اور بھاری اکثریت سے کامیابی کا یقین بھی ظاہر کر رہی ہے لیکن در پردہ وہ مسائل کا شکار ہے اور اسے اپنی کمزوریوں اور عوام کے موڈ کا بھی احساس ہونے لگا ہے ۔ اسی وجہ سے جہاں اپنے آلہ کار عناصر کو سرگرم کردیا گیا ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا اتحاد میں بھی اختلافات کو ہوا دینے کی مہم چلائی گئی ۔ اتحاد کو کمزور کرنے کیلئے ایکناتھ شنڈے ‘ اجیت پوار کا استعمال کیا گیا ۔ ان کی جماعتوں میںانحراف کرواتے ہوئے بی جے پی نے اقتدار میںحصہ داری حاصل کرلی ۔ اس کے علاوہ نتیش کمار کو بھی اپنے ساتھ دوبارہ شامل کرلیا ہے ۔
ان ساری کاوشوں کے باوجود بی جے پی کو اپنے انتخابی امکانات کے تعلق سے زیادہ کچھ امیدیں پیدا نہیں ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے سکیولر اور مسلم ووٹوں کی تقسیم پر خاص توجہ کے ساتھ کام کرنے کا آعام کردیا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین اختلافات کو ہوا دینے کی مہم شروع کی گیء ہے اور اپنے آزمودہ آلہ کاروں کو اس کیلئے سرگرم کردیا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے عوام اس منصوبہ بندی کو سمجھیںاور بی جے پی اور اس کیلئے راستہ ہموار کرنے والے عناصر کی سازشوں کا کسی دباؤ اور کسی پروپگنڈہ کا شکار ہوئے بغیر ملک اور قوم کے مفادات کے مطابق فیصلہ کریں۔