بی جے پی کے دوہرے معیارات

   

جہاں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی
وہیں سے ایک نئی تیرگی اُبھر آئی
بی جے پی کے دوہرے معیارات
مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کی سرگرمیاں ایسا لگتا ہے کہ اب اپنے منطقی انجام تک پہونچنے والی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں شیوسینا کو غیر روایتی طور پر این سی پی اور کانگریس کی تائید حاصل ہو رہی ہے ۔ شیوسینا زیر قیادت حکومت تشکیل پانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اور این سی پی و کانگریس اس حکومت میں حصہ دار ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ مہینے ہوئے انتخابات اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد صورتحال جس تیزی سے بدلی ہے اس نے ایسا لگتا ہے کہ ملک کی سیاست کوا یک نیا موڑ دینے کا کام کیا ہے ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مہاراشٹرا کا تجربہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی جماعتوں کی از سر نو صف بندی بھی ہوسکتی ہے ۔ این ڈی اے میںشامل جماعتیںاپنے لئے نئے حلیف تلاش کرنے کی خود میں ہمت بھی پیدا کرسکتی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ایک بات طئے ہے کہ بی جے پی کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اس کیلئے انتہائی غیر متوقع کہی جاسکتی ہے ۔ اس صورتحال نے بی جے پی کو عملا بوکھلا دیا ہے اور وہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ شیوسینا کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہے۔ بی جے پی کے لیڈر و مرکزی وزیر نتن گڈکری نے آج کہا کہ شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس کا اتحاد موقع پرستانہ ہے اور اگر یہ جماعتیں مہاراشٹرا میں حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو یہ حکومت چھ تا آٹھ ماہ سے زیادہ چلنے والی نہیں ہے ۔ حکومت کے استحکام پر اس کے قیام سے قبل اندیشے ظاہر کرنا بی جے پی کی سیاسی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہی کہا جاسکتا ہے تاہم اس اتحاد کو موقع پرستانہ قرار دینا یہ بی جے پی کی ڈوغلی پالیسی ہے ۔ اس کے دوہرے معیارات ہیں۔ بی جے پی کو مہاراشٹرا کے اتحاد پر تبصرہ کرنے سے قبل ہریانہ کے تعلق سے غور کرلینے کی ضرورت ہے جہاں جے جے پی اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی شدت سے انتخابی مہم چلائی تھی ۔ الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔ تاہم نتائج کے بعد جب بی جے پی کو تائید کی ضرورت تھی فوری سے پیشتر جے جے پی کی تائید حاصل کرلی گئی ۔ ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دیدیا گیا اور حکومت قائم کرلی گئی ۔
جو جماعتیں ہریانہ میں مخالفت میں انتخاب لڑتی ہیں اور پھر انتخابات کے بعد اتحاد کرتے ہوئے حکومت بناتی ہیں تو وہ اگر درست ہوسکتا ہے تو مہاراشٹرا میں اس پر تنقید کرنے کا بی جے پی کو کوئی اخلاقی حق نہیں ہوسکتا ۔ مہاراشٹرا میں بھی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ بھی صرف بی جے پی کے ہٹ دھرمی والے رویہ سے ۔ بی جے پی کی جانب سے اپنے مخالفین کے بعد اب اپنی حلیف جماعتوں کو بھی نیچا دکھانے کی حکمت عملی اورا ن پر اجارہ داری چلانے کی پالیسی کی وجہ سے شیوسینا نے اپنے لئے علیحدہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اگر اپنے فائدہ یا مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اتحاد کرتی ہیں تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ موقع پرستی ہوتی ہے لیکن اس پر تنقید کرنے کا اس جماعت کو کوئی حق نہیں پہونچتا جو خود ایک سے زیادہ ریاستوں میں ایک سے زیادہ مواقع پر موقع پرستانہ اتحاد کرچکی ہے اور اسی موقع پرستی کے ذریعہ وہ ریاستوں میں حکومت بھی کر رہی ہے ۔ اس کی مثالیں ہریانہ کے علاوہ کئی اور ریاستوں سے بھی لی جاسکتی ہیںجہاں بی جے پی چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود علاقائی جماعتوں کو اپنے حلقہ اثر میں لے کر حکومت بنا چکی ہے ۔ بعض ریاستوں میں تو اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد دو ہندسی بھی نہیں ہے لیکن وہ حکومت میں یا تو حصہ دار ہے یا پھر حکومت کی قیادت بھی کرتی نظر آر ہی ہے ۔ یہ اتحاد بھی موقع پرستانہ ہیں۔
جہاں تک مہاراشٹرا کا سوال ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شیوسینا کو این سی پی اور کانگریس کی جو تائید مل رہی ہے وہ غیر روایتی ہی ہے ۔ تاہم جس طرح سے بی جے پی نے شیوسینا کو دبانے اور خود کی بالادستی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی اس کو شیوسینا نے قبول نہیں کیا اور این سی پی و کانگریس نے اس موقع کو غنیمت جان کر اقل ترین مشترکہ پروگرام کی بنیاد پر مخلوط حکومت تشکیل دینے رضامندی کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے ریاست میں ایک عوامی منتخبہ حکومت قائم ہوگی۔ بی جے پی کو صدر راج کے ذریعہ اپنی من مانی کرنے کا موقع نہیں ملے گا جیسا کہ اس نے کشمیر میں کیا تھا ۔ اب جبکہ ریاست میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میںآنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تو بی جے پی اس پر چراغ پا ہے اور وہ اپنی بوکھلاہٹ میں اس طرح کے ریمارکس کر رہی ہے جس کا اسے کوئی حق نہیں پہونچتا ۔