تاجدار قندھار حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان ؒ

   

حافظ محمد حمیدالدین قادری
دکن زمانہ قدیم سے علم و عرفان اور روحانیت کا گہوارہ رہا ہے ۔ قندھار ( موجودہ مہاراشٹرا ) بلاشبہ صدیوں سے علم و عرفان کا مرکز رہا ہے ۔ حضرت کا اسم مبارک سید شاہ شیخ علی سانگڑے سلطانؒ ہے ۔ آپ آٹھویں صدی ہجری کے اواخر میں ۷۷۰ تا ۷۸۰ ہجری بمقام قندھار شریف ضلع ناندیڑ ( دکن ) میں پیدا ہوئے ۔ سلسلہ نسب چودھویں پشت میں حضرت سید احمد کبیر رفاعی معشوق اﷲ سے ملتا ہے ۔ آپ سادات حسینی سے ہیں اور بلحاظ سلسلہ نسب حضرت سید احمد کبیر رفاعی معشوق اﷲ کے چودھویں پوتے ہوتے ہیں۔ حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان ؒ کے پردادا سید ابراہیم سپہ سالار حضرت مخدوم حاجی میاں ؒ شہنشاہ دہلی محمد تغلق کی فوج کے ساتھ دکن میں تشریف لائے اور حاجی میاں سرور مخدوم کے خلوص و محبت اور ان کی رفاقت کی وجہ سے ہر دو حضرات قندھار شریف ہی میں مقیم ہوگئے ۔ چنانچہ ہر دو بزرگان دین کے آستانہ بڑی درگاہ اور چھوٹی درگاہ سے موسوم ہیں جن کے فیوض و برکات سے ہزاروں عقیدت مند بلا لحاظ مذہب و ملت یکساں طورپر مستفید ہوتے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ شیخ سانگڑے سلطان کی وجہ تسمیہ : سانگڑے سلطان آپ کا لقب ہے آپ کے نام کے ساتھ سانگڑے سلطان کا لقب جزولاینفک بن کر آپ کے اصل نام سے بھی زیادہ مشہور ہوگیا ۔ حضرت کے جد امجد حضرت سید ابراہیم سپہ سالار کو دوبار حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی سے بہ کمال شفقت شیخ کا لقب عطا ہونے پر آپ نے تعظیماً و احتراماً اپنے نام کے ساتھ شیخ کا استعمال فرمالیا ۔ شیخ کا یہی سلسلہ حضرت مشکل آسان ؒ قدس سرہ تک پہنچا اور آپ نے بھی جد امجد کی اتباع میں اپنے نام کے ساتھ شیخ کو مربوط و منسلک رکھا ۔ حضرت مشکل آسان قدس سرہ ایک بلند پایہ عالم فاضل ہونے کے علاوہ صاحب تصنیف بھی تھے لیکن افسوس کہ تاراجی اور ویرانی کی وجہ سے حضرت کی تصانیف مفقود ہوگئیں ۔ حضرت کا وصال بعمر ۸۶ سال ۸؍ صفر المظفر ۸۵۶ ھ کو ہوا اور بمقام قصبہ قندھار شریف ضلع ناندیڑ مدفون ہوئے جہاں آپ کا مزار پرانوار روضہ خورد کے نام سے موسوم ہے ۔ اس اعتبار سے آپ کا عرس مبارک ۸؍ صفر کو بڑے ہی تزک و احترام سے منایا جاتا ہے چنانچہ اس سال آپ کا ۵۸۵واں عرس شریف مورخہ ۸؍ صفر تا ۱۰؍ صفر ۱۴۴۱؁ھ زیرنگرانی حضرت سجادہ نشین مولانا سید شاہ انواراﷲ حسینی رفاعی و قادری منایا جائے گا ۔