تبدیلی مذہب۔ اے ٹی ایس کے کام پر مولانا کلب جواد نے سوالات کھڑا کئے

,

   

عالم نے کہاکہ اگر زبردستی کسی ایک فرد کا مذہب تبدیل کیاجاتا ہے تو اس کو اسلام میں شامل تسلیم نہیں کیاجاتا ہے۔


لکھنو۔ ممتا ز شیعہ عالم مولانا کلب جواد نے اے ٹی ایس کے کام پر سوالات کھڑا کئے اوراترپردیش کے دو لوگوں کو مذہبی تبدیلی کا مقدمہ درج کرنے پر ایک شفاف تحقیقات کا استفسار کیاہے۔

یوپی اے ٹی ایس کی جانب سے مفتی جہانگیر اور عمر گوتم کی گرفتاری کے پیش نظر ریاست بھر میں تبدیلی مذاہب کے تاروں کی جانچ شروع کردی گئی ے۔

رپورٹرس سے بات کرتے ہوئے مولانا کلب جواد نے کہاکہ”اس سارے معاملے پر یوپی اے ٹی ایس کو چاہئے کہ ایک شفاف تحقیقات کرے۔ اس کے علاوہ ذہن میں ان کے یہ بھی ہونا چاہئے کہ کوئی بے قصور فرد کو سزا نہیں ملے“۔

مولانا جواد ے کہاکہ ”مذہب تبدیل کرنے والے وہ لوگ جس کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں۔ کیا انہیں زبردستی اسلام میں داخل کیاگیاہے اور یا رضاکارانہ طور پر انہوں نے ایسا کیاہے؟اگر ایک فرد رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل کرتا ہے تو دستور ہند میں وہ قصور وار نہیں ہیں‘کیونکہ ہر مذہب کو دستور ہند کے مطابق فروغ دینے کی اجازت ہے۔

چاہئے وہ ہندوازم‘ مذہب اسلام یاپھر عیسائیت‘یہاں پر انہیں ان کے مذہب کا پروپگنڈہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے“۔انہوں نے مزید وضاحت کی کہ”اسلام میں زبردستی تبدیلی مذہب نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ اگر کسی فرد کو زبردستی مذہب تبدیل کرایاگیاتو اس کو اسلام میں تسلیم نہیں کیاجاتا ہے“۔

بیرونی امداد کے مسلئے پر مولانا جواد نے کہاکہ اگر پیسہ بیرونی ممالک سے آرہا ہے تویہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ انہوں نے اشارہ دیاکہ”اگر ایجنسیاں کہہ رہی ہیں بیرونی ممالک سے امداد ائی ہے توانہیں ثابت کرنا ہوگا۔

انہیں س بات کا بھی انکشاف کرنا ہوگا کہ پیسے کن ممالک سے آرہے ہیں اور پیسے طویل وقت تک کیسا آتے رہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو اس کے متعلق معلوم نہیں ہوا۔سکیورٹی کے نا م پر یہ بہت بڑی کوتاہی ہے“۔

مذکورہ یوپی اے ٹی یس نے دو عالماؤ ں کی گرفتاری کی او ران پر الزام لگایاکہ وہ لوگوں کو ”خوف او رلالچ“ کا استعمال کرتے ہوئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تفتیش کے دوران پولیس کو یہ جانکاری ملی کے گوتم نے خود مذہب اسلام اختیار کیاہے۔ یوپی اے ڈی جی (لاء اینڈ آرڈر)پرشانت کمار نے کہا کہ”انہوں نے بتایا کہ اب تک 1000لوگوں کو انہوں نے مسلمان کیاہے۔

ان دونوں لوگوں نے یہ بھی بتایاکہ انہیں انٹرنیشنل تنظیموں کی جانب سے پیسہ ملتا ہے تاکہ لوگو ں کو مذہب اسلام اختیار کرائیں“۔

یہ معاملہ اس وقت سرخیو ں میں آیا جب نوائیڈا ڈیف سوسائٹی میں پڑھنے والے بچے کے والدین نے کہاکہ ان کا بیٹا لاپتہ ہے اور بعد میں انہیں جانکاری ملی ہے کہ زبردستی ان کے بیٹے کا مذہب تبدیل کیاگیاہے۔

دونوں پر مذہب‘ ذات پات‘ رنگ ونسل‘ پیدائش‘ لسانیت اور رہائش دوگرہوں کے درمیان مذہب‘ جرائم‘ سازش اور دھوکہ بازی کی بنیاد پر بھڑکانے کا مقدمہ درج کیاہے۔