تریپورہ تشدد۔ پولیس نے 68ٹوئٹر صارفین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا

,

   

مذکورہ تریپورہ پولیس نے مذکورہ 68صارفین کے اکاونٹس کو منسوخ کرنے کا ٹوئٹر سے استفسار بھی کیاہے
مذکورہ تریپور ہ پولیس نے یو اے پی اے کی دفعہ 13کے تحت ٹوئٹر کے 68اکاونٹس پر مقدمہ درج کیاہے جس پر این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق الزام ہے کہ ریاست میں مساجد توڑ پھوڑ کے مواد کے متعلق ”مسخ شدہ یا قابل اعتراض“ پوسٹنگ کی ہے۔

اس سے وابستگی میں مذکورہ تریپورہ پولیس نے مذکورہ 68صارفین کے اکاونٹس کو منسوخ کرنے کا ٹوئٹر سے استفسار بھی کیاہے۔ ویسٹ تریپورہ ضلع پولیس نے ایک مکتوب جو ٹوئٹر کے شکایت لینے والے افیسر ہیں ان کے امریکہ کے کیلی فورنیا کے سرکاری پتہ ہر ارسال کیاگیا ہے میں 68اکاونٹس کے لنکس کا بھی ذکر کیاہے۔

اس مکتوب میں کہاگیاہے کہ ”یہ کہ کچھ افراد/تنظیموں نے شائع کیا/پوسٹنگ کی جو ٹوئٹر میں مسخ شدہ اور قابل اعتراض میں نیوز ائٹمس/بیانات پر مشتمل ہے جو ریاست میں مسلم کمیونٹیوں کے ماجد پر مبینہ حملے او رتصادم کے ضمن میں یہ کیاگیاہے“۔

اس مکتوب میں ذکر کیاگیا ہے کہ ان اکاونٹس پر جو نیوز پوسٹ جو شیئر کئے گئے وہ چھیڑ چھاڑ والے ہیں اور اس کو میدان میں اس لئے چھوڑا گیا ہے کہ دو مذہبی گروپس کے درمیان میں دشمنی کو بڑھاوا دیا جاسکے جو ”مجرمانہ“ سازش کی موجودگی میں ہوا ہے۔

اس مکتوب میں لکھا گیاہے کہ”مختلف مذہبی گروپس کے لوگوں کے درمیان میں تریپورہ ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں امکان یہ پوسٹ ہیں‘ جو فرقہ وارانہ فسادات کی وجہہ بن سکتے ہیں“۔

اسی ضمن میں پولیس نے اکاونٹس کا جہاں سے استعمال کیاگیا ہے وہ ائی پی ایڈریس کی تفصیلات پر مشتمل فہرست بھی مانگی ہے‘ اور اس سے منسوب موبائیل نمبر س بھی طلب کئے ہیں۔

ان 68افراد کے خلاف ائی پی سی کی دفعات153اے‘153بی‘ 569‘ 471‘503‘504‘اور 120بی کے تحت بھی مقدمات در ج کیاگیاہے

سپریم کورٹ کے وکلاء پر بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج
ایک دن بعد سپریم کورٹ کے چار وکلاء پر بھی جو تریپورہ میں تشدد کی تحقیقات کرنے والے حقائق سے آگاہی کمیٹی کی ٹیم کا حصہ تھے‘ یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے۔

پولیس کادعوی ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے سوشیل میڈیا پوسٹ کے ذریعہ مبینہ فرقہ وارانہ ان وکلاء نے پھیلائی ہے۔

مذکورہ حقائق سے آگہی رپورٹ جس کا عنوان”تریپورہ میں انسانیت حملے کے سایہ میں مسلمانوں کی زندگی کا مسئلہ“ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ تریپورہ میں بی جے پی حکومت اگر چاہتی تو تشدد کو روک سکتی تھی مگر انہوں نے ہندوتوا ہجوم کو کھلی آزادی دی تھی۔


ریاست تریپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد
بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف تریپورہ میں مقامی مسلمانوں کے مطابق بجرنگ دل‘ وی ایچ پی‘ آر ایس ایس نے ایک احتجاجی ریالی نکالی تھی۔

حالانکہ بنگلہ دیش نے اپنے پاس ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پالیا مگر فرقہ پرست طاقتیں اس حوالے سے ہندوستان میں تشدد برپاکرنے کی فراغ میں ہیں اور تریپورہ وہ ریاست ہے جہاں پر زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

صدرجمعیت العلماء تریپورہ چیاپٹر مفتی طیب الرحمن نے این ڈی ٹی وی ”ان حملوں کے متعلق ہم نے انتظامیہ کو آگاہ کیاتھا۔

اب بعض منتظمین اور میڈیا ان حملوں کے متعلق الجھن پیدا کررہے ہیں۔ مگر یہ درحقیقت پیش ائے ہیں اور اس کی جانکاری ترتیب سے ہم نے انتظامیہ کو دی ہے“