تشریح عالم برزخ

   

محدث دکنؒ حضرت مولانا سید عبد اللہ شاہ نقشبندی
عالم تین ہیں :
(۱) عالم دنیا (۲) عالم برزخ (۳) عالم آخرت
ہر کام نیک ہو یا بد کرنے کے بعد اس کا رنگ روح پر اور دل پر جمتا ہے اور عالم برزخ میں چھپتا ہے۔ ہر ایک کام عالم برزخ میں اپنے مناسب شکل و صورت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی عالم برزخ کو قبر بھی کہتے ہیں۔ عالم برزخ میں جس کام کی جو صورت بنتی ہے، قیامت تک وہی رہتی ہے۔ پھر قیامت میں جب یہ دونوں عالم (دنیا اور برزخ) فنا ہو جائیں گے، کثافت کی چادر اُتارکر سارا عالم لطیف اور نورانی ہو جائے گا تو عالم برزخ میں جس کام کی جو صورت بنی تھی، وہ کامل طورپر ظاہر ہو جائے گی۔ اس لحاظ سے ہر نیک و بد کام کے موجود ہونے کی تین حالتیں ہوئیں (۱) صدور (۲) ظہور مثالی (۳) ظہور حقیقی۔
اس کو فوٹو فون کی مثال سمجھئے!۔ جب آدمی بات کرتا ہے تو اس کے تین درجے ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ ’’الفاظ منہ سے نکلے‘‘۔ دوسرا درجہ ’’منہ سے نکلے ہوئے الفاظ فوراً فوٹو فون (ریکارڈ) میں بند ہو گئے اور اس میں چھپ گئے‘‘۔ تیسرا درجہ ’’جب کنجی دیں اور ریکارڈ بجنے لگے تو بعینہٖ وہی الفاظ اور آواز ظاہر ہو جاتی ہے جو ریکارڈ میں بند ہوئی ہے‘‘۔ مذکورہ مثال کی تطبیق اس طرح ہوتی ہے۔ پہلا ’’الفاظ منہ سے نکلنا‘‘ یہ ایک عالم، اس کی مثال عالم دنیا کی سی ہے۔ دوسرا ’’فوٹو فون (ریکارڈ) میں الفاظ بند ہونا‘‘ ایک عالم، اس کی مثال عالم برزخ کی سی ہے۔ تیسرا اس سے یعنی ریکارڈ سے آواز نکلنا‘‘ ایک عالم، اس کی مثال عالم قیامت کی سی ہے۔
کوئی شخص اس بات میں شک نہیں کرتا کہ جو الفاظ منہ سے نکلے تھے، وہی فوٹو فون (ریکارڈ) میں بند نہیں ہوئے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کرتا کہ ریکارڈ بجتے وقت وہ الفاظ نہ نکلیں گے جو ریکارڈ بھرتے وقت نکلے تھے۔
اسی طرح مسلمان کو اس میں شک نہیں کرنا چاہئے کہ جس وقت کوئی عمل نیک و بد اس سے ہوتا ہے وہ عالم برزخ میں نہ چھپے گا اور قیامت میں اس کا پورا ظہور نہ ہوگا، کیونکہ قدرت کے کارخانے میں جو طریقہ مقرر کیا گیا ہے، اس کے خلاف نہیں ہوسکتا، ایسا ہی نیک و بد عمل کا جو طریقہ مقرر کیا گیا ہے، اس کے خلاف بھی نہیں ہو سکتا۔
عالم برزخ کی اس تشریح کے بعد معراج شریف کے واقعہ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے، جس میں حضور ﷺ کو عالم برزخ کی سیر کرائی گئی۔ عالم برزخ کی تشریح میں معلوم ہو چکا ہے کہ عالم دنیا کے ہر ایک نیک و بد عمل کے اشکال عالم برزخ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ کو وہ اشکال اس طرح دکھلائے گئے:
عالم برزخ کی شکل (۱)
ایک مقام پر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک بدنصیب قوم سخت تکالیف میں مبتلاء ہے، انھیں زمین پر چت لٹا رکھا ہے اور ان کے سروں کو بڑے بڑے وزنی پتھروں سے کچلا جاتا ہے۔ اُدھر سر کچلا گیا، اِدھر فوراً صحیح و سالم ہو گیا، پھر کچل دیا گیا۔ بدستور یہی حالت چلی جاتی ہے، اس کا سلسلہ ذرا بند نہیں ہوتا۔ اس حالت کو دیکھ کر بہت افسوس کے ساتھ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جبرئیل! یہ کون بدنصیب لوگ ہیں، انھیں یہ سزا کیوں دی جا رہی ہے؟‘‘۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’حضرت! یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پانچ وقت کی نہیں پڑھتے تھے، جمعہ اور جماعت کے لئے مسجد میں نہیں آتے تھے یا رکوع و سجود پوری طرح نہیں کرتے تھے۔ جو سر خدا کے سامنے نہیں جھکتا تھا، وہی سر یہاں کچلا جا رہا ہے‘‘۔ یہ خوفناک واقعہ دیکھتے ہوئے آگے تشریف لے چلے۔ تھوڑی دور چل کر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ:

عالم برزخ کی شکل (۲)
کچھ لوگ ننگے منگے کھڑے ہیں، صرف ان کی ستر اور شرمگاہ پر دھجیاں سی پڑی نظر آتی ہیں۔ اس حالت میں ان کی یہ کیفیت ہے کہ دوزخ کے جنگل کی گھاس، کانٹے، پتھر، انگار سب کچھ کھا جاتے ہیں مگر پیٹ نہیں بھرتا۔ اس حالت کو ملاحظہ فرماکر آپ نے پوچھا ’’جبرئیل (علیہ السلام)! یہ کون لوگ ہیں اور کس عمل کی ان کو یہ سزا مل رہی ہے؟‘‘۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوۃ نہیں دیا کرتے تھے، زکوۃ کا مال دینے کی چیز نہ دے کر آپ ہی کھا لیا کرتے تھے۔ اس کی سزا میں کنکر، پتھر، انگارے جو ان کے کھانے کی چیز نہیں ہے انھیں کھلائی جا رہی ہے‘‘۔ سچ ہے ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘۔ حضرت ﷺ یہ غمناک حادثہ دیکھتے ہوئے آگے چلے۔ تب ایک اور عجیب واقعہ ملاحظہ فرمایاکہ:
عالم برزخ کی شکل (۳)
ایک جگہ کچھ عورتیں اور مرد جمع ہیں، ان کے سامنے اچھا نفیس گوشت نہایت عمدہ پکا ہوا رکھا ہے، دوسری طرف کچا بدبودار گوشت پڑا ہوا ہے۔ انھیں حکم ہوتا ہے کہ یہ نفیس گوشت کھاؤ، مگر وہ بدنصیب لوگ وہ عمدہ گوشت چھوڑکر وہ کچا سڑا ہوا مردار گوشت کھا رہے ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر ان نالائقوں کے ناجائز فعل پر نہایت نفرت کرتے ہوئے دریافت فرمایا ’’جبرئیل (علیہ السلام)! یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟‘‘۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم! یہ وہ مرد ہیں جن کے پاس حلال و پاک بی بی ہوتے ہوئے بھی دوسری عورت سے حرام و زنا کرتے تھے۔ رات بھر حلال بیویوں کو ترستا چھوڑکر ناجائز عورتوں کے پاس راتیں گزارتے تھے۔ اسی طرح یہ وہ خبیث عورتیں ہیں کہ جن کے پاس حلال خاوند ہیں، مگر ان بد عورتوں نے اپنے خاوندوں سے بے رغبت ہوکر غیروں سے رغبت اختیار کی تھیں، ان کے عمل کی یہ صورت عالم برزخ میں بنی ہے‘‘۔
حضرت ﷺ جب آگے چلے تب آپ کو ایک بڑا گڑھا اور خوفناک بھڑکتی ہوئی آگ سے بھرا ہوا کنواں جس میں آگ جوش مار رہی تھی نظر آیا، اس میں ننگے مرد اور عورت جلتے ہوئے اوپر آتے ہیں، پھر نیچے اس کے تہہ میں جاتے ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘۔ عرض کیا گیا کہ ’’حضور! یہ وہی زانی اور بدکار مرد و عورت ہیں جن کو حضور نے ابھی ملاحظہ فرمایا تھا۔ یہاں خیال کی بھی صورت ہو جاتی ہے، وہ ان کے ناپاک خیال کی مثال حضرت نے ملاحظہ فرمائی تھی، یہ ان کے عذاب کی کیفیت آپ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے آگے چلے تھوڑی دور کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ:
عالم برزخ کی شکل (۴)
سر راہ چند لوگ آگ کی سولیوں پر لٹکے ہوئے ہیں، کانٹے دار درخت کی طرح ان کی حالت ہے، جو کوئی ان کے پاس سے گزرتا ہے فوراً وہ ان گزرنے والوں کے کپڑے اور سر کے بال نوچ لیتے ہیں۔ حضور ﷺنے فرمایا ’’جبرئیل (علیہ السلام)! یہ کیا ہے؟‘‘۔
جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ ’’حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو راستہ پر بیٹھتے تھے اور راستہ چلنے والوں کو ایذا دیتے تھے، آنکھ سے اشارہ کرتے تھے اور زبان سے گالیاں دیتے تھے، لوگوں پر ہنستے تھے‘‘۔ اس کے بعد کچھ دور جاکر حضرت ﷺنے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمایا۔

عالم برزخ کی شکل (۵)
ایک شخص نہایت کمزور ناتواں ہے اور ایک بڑا گٹھا لکڑیوں کا باندھ کر چاہتا ہے کہ اس بھاری گٹھے کو سرپر اٹھائے، مگر گٹھا وزنی ہونے کے سبب اٹھا نہیں سکتا۔ جب اس سے وہ گٹھا نہ اٹھا تو بجائے لکڑیوں کو کم کرنے کے لکڑیاں اور زیادہ کرتا ہے اور پھر اٹھانا چاہتا ہے۔ اسی طرح ہر دفعہ وزن زیادہ ہی کرتا جاتا ہے۔ حضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ’’اے جبرئیل (علیہ السلام)! یہ کون بے عقل شخص ہے؟‘‘۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’یہ وہ خیانت کرنے والا شخص ہے جو تھوڑی سی امانتوں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا تھا، مگر اور امانتوں کے زیادہ کرنے کی کوشش کرتا تھا، آخر اسی حالت میں ہلاک ہو گیا۔ یہ ایسا حریص شخص تھا، مال اتنا جمع کرتا تھا کہ اس کے حقوق ادا نہیں کرسکا، لیکن اور مال زیادہ کرنے کی ہی حرص کرتا رہا‘‘۔