تصوف ، تہذیب ، اخلاق اور مجاہدۂ نفس

   

آج کے اس مادی اور ٹکنالوجی کے دور میں اخلاقیات اور انسانی اقدار روز افزوں تنزل و انحطاط کا شکار ہیں ۔ نفسانیت اور حیوانیت غیرشعوری طورپر بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورت ہر ایک میں پروان چڑھتے جاری ہے اور ہر شخص قلبی سکون سے محروم ہورہا ہے نیز ذہنی تناؤ ، قلبی انتشار Anxiety اور Lepression سے بلالحاظ ہرفرد متاثر ہورہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ عائلی نظام اور Family Structure تباہی کے دھانے پر ہے ۔ میاں بیوی میں ذہنی موافقت نہیں ہورہی ہے ، طلاق کا فیصد بڑھ رہا ہے ، خاندانی تعلقات میں نمایاں فرق آگیا ہے ، ماںباپ اولاد سے خوش نہیں ، اولاد کی نافرمانی اور ایذارسانی کے شکوے ہر گھر سے سنائی دے رہے ہیں، ماں باپ کا احترام اطاعت اور خدمت کا تصور نئی نسل میں مفقود ہوتے جارہا ہے ، بھائی بھائی میں پیار و محبت اور نصرت وحمایت کے بجائے فخر و غرور اور اظہاربرتری پائی جارہی ہے ۔ یہ سب کچھ اخلاقیات کی کمی اور نفسانیت کے غلبہ کے اثرات ہیں ۔ اس دور میں جبکہ مادی ترقی ، جدید ٹکنالوجی سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ کی سہولتوں نے انسان میں حیوانیت اور خواہشات نفسانی کو برانگیختہ کردیا ہے ،تہذیب اخلاق ، کردار کو سنوارنا ، اچھی عادتوں کو اپنانا اور برے صفات کو دور کرنا سب سے مشکل مسئلہ بن گیا ہے اور جب تک اخلاق و کردار کو سنوارا نہ جائیگا یعنی اچھی عادتوں کو طبیعت کا لازمی حصہ نہیں بنایا جائیگا اور بری عادتوں سے طبعی طورپر نفرت پیدا نہیں کی جائیگی تب تک انفرادی ، عائلی اور اجتماعی سدھار و کامیابی مشکل سے مشکل تر ہوجائیگی ۔
حجۃ الاسلام ابوحامد محمد بن محمد الغزالی (وفات:۵۰۵؁ ھ ) نہ صرف اس اُمت بلکہ ساری انسانیت کے عقلاء ، حکماء اور فلاسفہ میں اپنا امیتازی مقام رکھتے ہیں ۔آپ اپنی معرکۃ الارا تصنیف ’’احیاء علوم الدین ‘‘ میں انسانیت کے لئے فائدہ مند اور ضرر رساں اُمور کو قرآن و حدیث ، فقہاء و صوفیہ کے ارشادات نیز انسانی فطرت کے آئینہ میں متاثرکن اسلوب میں جامعیت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے ۔ منجملہ عظیم مباحث کے ایک بنیادی اور کلیدی بحث تہذیب اخلاق اور ریاضت نفس پر درج کی ہے جس کامفہوم اور خلاصہ درج ذیل ہے : اخلاقِ حسنہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی صفت عالیہ اور صدیقین کے افضل تر اعمال سے ہے اور یہی نصف دین ہے اور متقی و پرہیزگاروں کے مجاہدات کا ثمرہ ہے نیز برے اخلاق سمّ قاتل ، ہلاکت خیز اور رسوا کن خبائث میں سے ہے جو رب العلمین کے قرب و جوار سے دور کرنے والے ، شیاطین کے صف میں پہچانے والے اور دوزخ کا دروازہ کھولنے والے ہیں جوکہ قلب اور نفس کی بیماریاں ہیں جن کا علاج ناگزیر ہے ۔ جسمانی بیماریوں کے علاج میں کوتاہی ہو تو بیمار دنیوی زندگی سے محروم ہوتا ہے اور قلبی بیماریوں کے علاج میں کوتاہی ہو تو وہ حیات ابدی سے محروم ہوتا ہے ۔ ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں روبرو پیش ہوا اور عرض کیا : دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’حسن الخلق ‘‘ ( اچھے اخلاق ) پھر وہ سیدھے جانب سے پیش ہوا اور عرض کیا : دین کیا ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے اخلاق ۔ بعد ازاں وہ بائیں جانب سے حاضر ہوا اور وہی سوال کیا : دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے اخلاق ۔ پھر وہ پیچھے سے عرض گزار ہوا ۔ دین کیا ہے ؟ آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم نہیں سمجھتے کہ دین یہ ہے کہ تم غصہ نہ ہو ۔ اسی طرح آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ’’منحوسی‘‘ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’بدخلقی‘‘ ۔
ایک صحابی رسول نے نصیحت کرنے کی گزارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’جہاں کہیں رہو اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ‘‘ ۔ انھوں نے مزید خواہش کی تو فرمایا ، گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً نیکی کرلیا کرو ، نیکی اس برائی کو ختم کردیگی ، انھوں نے مزید نصیحت کی خواہش کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں سے اچھے اخلاق سے برتاؤ کرو ۔ آپ ﷺ نے حسن اخلاق کو افضل ترین عمل قرار دیا اور فرمایا جس بندے کو اﷲ حسن اخلاق سے آراستہ کرتا ہے اس کو دوزخ کی آگ کا نوالہ نہیں بناتا اور یہ بھی فرمایا : تم میں سب سے زیادہ مجھے محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کاحامل ہوگا اور یہ بھی وضاحت فرمادی کہ انسان برے اخلاق کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوگا ۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں : چار خصلتیں قلت علم و عمل کے باوجود بندے کو بلند مراتب تک پہنچادیتے ہیں (۱)بردباری (۲) تواضع (۳)سخاوت (۴) اچھے اخلاق ۔ حسن اخلاق کی تشریح و تعبیر میں اکابر اُمت کے مختلف اقوال ذکر فرمائے ۔ حضرت واسطی کا قول ہے حسن اخلاق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بھرپور معرفت کی بناء نہ وہ کسی سے جھگڑا کرے اور نہ کوئی اُس سے مخاصمت رکھے اور ایک مرتبہ آپ نے حسن خلق کو اس طرح بھی بیان فرمایا کہ اچھے اخلاق خوشحالی اور تنگدستی میں مخلوق کو راضی رکھنا ہے۔ حضرت سہل تستری سے حسن اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کاادنیٰ درجہ یہ ہے تکلیف کو برداشت کرے ، مکافات و ردعمل کو ترک کرے ، ظلم کرنے والے پر مہربان ہو اس کے لئے مغفرت طلب کرے اور شفقت کا برتاؤ کرے ۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : حسن اخلاق تین خصلتوں میں پایا جاتا ہے (۱) حرام کردہ اشیاء سے بچنا (۲)رزق حلال طلب کرنا (۳) اہل و عیال پر کشادگی کرنا ۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ درحقیقت نفس میں پنہاں وہ ھیئت راسخہ ہے جس سے افعال و اعمال غوروفکر کے بغیر بسہولت صادر ہوتے ہیں اگر وہ شرع اور عقلی اعتبار سے قابل تعریف ہوں تو حسن اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ شریعت اور عقلی اعتبار سے برے ہوں تو برے اخلاق کہتے ہیں۔ جس طرح اعضاء بدنی کے معتدل اور متوازن ہونے پر خوبصورتی کااطلاق ہوتا ہے صرف آنکھ خوبصورت ہو ، ناک ، منھ اور رخسار میں حسن نہ ہو تو حسین ہونے کا اطلاق نہیں ہوتا اسی طرح جب تک کسی انسان میں چار بنیادی صفات حد اعتدال میں نہ ہوں اس پر حسن اخلاق کااطلاق نہیں ہوتا اور وہ یہ ہیں : (۱) قوت علم (۲) قوت غضب (۳) قوت شہوت (۴) قوت عدل ۔ جب یہ چاروں قوتیں حد اعتدال میں ہوتی ہیں ، ان میں کمی و بیشی نہیں ہوتیں تو وہ (۱) حکمت (۲) شجاعت (۳)عفت(۴) عدل سے موسوم ہوتی ہیں اور ساری خرابیاں ان چار متذکرہ قوتوں کے حداعتدال میں نہ ہونے کی بناء پر ہوتی ہیں۔ اگر قوت علم میں میانہ روی ہو تو وہ حکمت اور دانائی کہلاتی ہے جوکہ پسندیدہ اور مطلوب صفت ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جس کو حکمت عطا ہوئی اس کو خیرکثیرعطا ہوئی ہے اور جب اس قوت میں زیادتی ہوتی ہے تو وہ مکر ، فریب ، دھوکہ کہلاتی ہیں جوکہ مذموم صفات ہیں اور اگر اس قوت میں کمی ہو تو وہ بیوقوفی ، حماقت ، جنون اور نہ تجربہ کاری کہلاتی ہیں ۔ اسی طرح جب قوت غضبیہ حد اعتدال میں ہو تو اس کو ’’شجاعت‘‘ کہتے ہیں اسی میں کرم ، بزرگی ، شہامت ، کسر نفسی، قوت برداشت ، حلم و بردباری ، غصہ کو پینا ، وقار جیسے اخلاق شامل ہیں اور اس میں زیادتی ہو تو اس کو طیش میں آنا ، تکبر، غرور کہتے ہیں اور کمی ہو تو ذلت ، رسوائی ، خوف ، ہیبت اور خفت جیسے صفات صادر ہوتے ہیں اور جب قوت شہوانیہ حد اعتدال میں ہو تو وہ ’’عفت‘‘ اور پاکدامنی کہلاتی ہے جو جو عقلاً اور شرعاً صفت محمودہ ہے ، اسی سے سخاوت ، حیاء ، صبر ، درگزر کرنا ، قناعت ، ورع ،لطافت ، مدد کرنا ، اعلیٰ ظرفی جیسے صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اگر اس قوتِ شہوانیہ میں توازن نہ رہے بلکہ کمی و زیادتی ہو تو اسی سے حرص و ہوس، اسراف ، ریاء کاری ، حسد ، چاپلوسی ، مالداروں کی آؤ بھگت کرنا ، غریبوں کو حقیر سمجھنا جیسے خفیفہ صفات صادر ہوتے ہیں ۔ قوت علمیہ ، قوت غضبیہ اور قوت شھوانیہ کو حد اعتدال میں رکھنے ہی کو قوت عدل کہتے ہیں۔ جب یہ عناصر و صفات حد اعتدال میں ہوں تو حسن اخلاق کہلاتے ہیں اور ان میں کمی زیادتی ہو تو وہ برے اخلاق کہلاتے ہیں ۔ کوئی حسن اخلاق کاحامل پیدائشی اور فطری طورپر ہوتا ہے اور حسن اخلاق کو محنت ، ریاضت اور تربیت کے ذریعہ بھی حد اعتدال میں لایا جاتا ہے ۔ اسی لئے حضور پاک ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اخلاق کو حسین بناؤ ۔ افسوس کہ آج قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو قابو کرنے کیلئے جدوجہد اور ریاضت کرنے کے بجائے ہم اسی کو غیرشعوری طورپر پروان چڑھارہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہر شخص میں برے صفات و اخلاق کا ظہور ہورہاہے ۔ قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو مغلوب کئے بغیر کوئی شخص بااخلاق ، متقی ، پرہیزگار اور دین و دنیا میں معزز و مکرم نہیں ہوسکتا ۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ ، فلمیں ، سیریل ، ڈرامے ، سوشیل میڈیا نے انسانی اخلاق و کردار کو تباہ و تاراج کردیا ہے۔جس کی بناء ملت کا ہر فرد بچہ بوڑھا ، مرد ، عورت سب بداخلاقی کے شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ قوت غضبیہ اور قوت شہوانیہ کو حداعتدال میں لانا اور قوت علمیہ یعنی روحانیہ کو فروغ دینے کا نام ہی تصوف میں مجاہدہ نفس کہلاتا ہے یعنی صوفی بااخلاق ہوتا ہے اور بااخلاق بناتا ہے۔