تعلیماتِ نبوی ؐ میں ماتحتوں کےساتھ حسن سلوک

   

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیاکے لحاظ سے سب کوبرابری نہیں دی کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر۔ مقام و مرتبہ کا یہ فرق اس لئے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانہ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتائو کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کا حسن ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنے کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔
اسلام سے قبل عرب کے دورِ جاہلیت میں غلاموں اور باندیوں کا رواج عام تھا، جو شخص ایک مرتبہ غلام بن جاتا، پھر وہ نسل در نسل غلام ہی رہتا۔ غلاموں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی اور جبروتشدد کیا جاتا، اسے دیکھ اور سن کر جسم کا رواں رواں کانپ اٹھتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جب رحمۃ للعالمین بن کر دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے غلاموں کو آزادی دلاکر اس بھیانک تصور کا خاتمہ کیا۔ صحابہ کرام ؓنے نہ صرف اپنے غلاموں کو بلکہ مشرکین کے غلاموں کو بھی اللہ کی راہ میں خرید کر آزاد کروایا۔ اس کے ساتھ ہی آ پ ﷺنے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق متعین فرمادیئے۔ جو لوگ دوسروں کی خدمت کرکے روزی کماتے ہیں، ان کے حقوق و فرائض کی نشان دہی فرمادی اور سب کو پابند فرمادیا کہ ان حقوق کی سختی سے پاس داری کریں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر گھریلو ملازمین، خصوصا ًخواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ قابلِ افسوس بھی ہے اور شرمناک بھی۔ غربت کے ہاتھوں پِسے ان لوگوں پر ڈھائے گئے ظلم و جبر اور اذیت کی داستانیں آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں، لیکن یہ تو وہ چند کہانیاں ہیں، جو کسی طرح سے منظر عام پر آجاتی ہیں، جب کہ چند اچھے گھرانوں کو چھوڑ کر عمومی طور پر ان گھریلو ملازم خواتین اور ملازم بچوں کے ساتھ اہلِ خانہ، خصوصاً گھر کی مالکہ کا رویہ نہایت حقارت انگیز، نازیبا اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر سخت برا بھلا کہنا، جھڑکنا اور تشدد کرنا ان کا وطیرہ اور روز کا معمول ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔
گھریلو ملازم کے بنیادی حقوق
معاشرے میں پھیلی برائیوں اور بداعتمادی کے سبب بغیر ریفرنس کسی اجنبی کو گھریلو ملازم رکھنے سے پرہیز کیا جائے۔ ملازم یا خادم رکھتے وقت متعلقہ تھانے میں اس کی رجسٹریشن ضرور کروائیں۔ اسلام میں نامحرم سے پردے کے حکم میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور گھریلو ملازمین کو اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کا اہتمام خود بھی کریں اور گھر کی خواتین سے بھی کروائیں۔ ملازم، خادم رکھنے سے پہلے اسے کام کی نوعیت، اوقات ِکار، تنخواہ اور دیگر شرائط کے بارے میں تفصیل سے مطلع کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی صلاحیت، طاقت اور استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔اس کے ساتھ حسنِ سلوک، احسان اور انصاف کیا جائے۔ طے شدہ کام اور اوقات کار سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ اضافی کام اور اضافی اوقاتِ کار کا الگ سے معاوضہ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق دیا جائے۔ ملازم، خادم کی خطائوں، لغزشوں کو درگزر اور معاف کیا جائے۔اس پر کسی بھی قسم کی ناجائز سختی، توہین، تشدد یا مارپیٹ سے پرہیز کیا جائے۔ نادانستگی میں ہونے والے نقصان پر اسے معاف کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی اجرت، پہننے کے لیے لباس، غذا کی فراہمی اور دیگر ضروریات وقت پر باقاعدگی سے پوری کی جائیں۔ ان کے آرام کا بھی خیال رکھا جائے اور بیماری یا کسی پریشانی میں انہیں مدد، تعاون اورسہولت فراہم کی جائے۔ نیز،جس حد تک ممکن ہو، ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔
ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک
خیر کے کاموں میں حسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے۔ حضورﷺ اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضور ﷺنے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔(صحیح بخاری)
٭٭٭
تعلیماتِ نبوی ؐ میں ماتحتوں کےساتھ حسن سلوک
مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بدبختی ہے۔(سنن ابودائود)
خدام اور ملازمین کے ساتھ ہمیشہ ہم دردانہ رویہ رکھنا چاہیے۔ اگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے، تو ضبط سے کام لینا چاہیے اور بداخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھالے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلادے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ(غلام) تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے انہیں تمہارا دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلائو، جو تم خود کھاتے ہو۔ وہی پہنائو، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔ (متفق علیہ)
ملازمین کواجرت کی بروقت ادائیگی
طے شدہ اجرت کی ادائیگی ملازم کو بروقت کرنی چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح عموما لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔(سور النساء)
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ ان کا ایک ماتحت ملازم ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے فرمایا کیا کنیزوں اور غلاموں کو ان کا کھانا دے دیا ہے۔ کہا، نہیں، تو فرمایا جائو ان کا کھانا دو، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی بربادی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی روزی اس کے ذمے ہو، اسے روکے۔ ایک روایت ہے کہ آدمی کے تباہ ہونے کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جو روزی دی جاتی ہے، اسے ضایع کردے۔(مسلم شریف)
عفو و درگزر سے کام لینا
ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میںوقف کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یارسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وسلم )میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر روز ستر مرتبہ۔(ترمذی شریف)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ شخص نہ بتائوں، جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔(ترمذی شریف)
حضرت سہیل بن معاذ ؓنے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے غصے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے، پسند کرلے۔ (ترمذی شریف)
خدام اور ملازمین کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کرکے معاف کرنے والے کا دل خوفِ خدا کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔حضرت امام غزالی ؒنے فرمایا کہ خادموں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو، یہ خیال کرو کہ یہ بھی تمہاری طرح بندے ہیں۔ اگر ان سے کوئی قصور یا کوتاہی ہوجائے، تو خود جو قصور اور گناہ کرتے ہو، ان کا خیال کرو اور انہیں یاد کرو اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرو۔ (کیمیائے سعادت)
ماتحت پر سختی کرنے کی ممانعت
آ ج ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدوکوب کرنے، یہاں تک کہ انہیں جلا دینے تک کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کی غلطیوں کو تو نظرانداز کردیتے ہیں، لیکن کم سِن ملازم کی ذرا سی غلطی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات میں عموماً بڑے گھرانوں کی خواتین شامل ہوتی ہیں، جن کے دلوں سے خوفِ خدا ختم ہو چکا ہے۔ ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان معصوم ملازمین پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم، تشدد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کراماًکاتبین لکھ رہے ہیں۔ روزِ قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامہ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا و سزا اعمال سے مربوط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔(متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تم میں سے برے لوگ نہ بتائوں؟ وہ جو اکیلے کھانا کھائے، اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی بخشش کو روکے۔
حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے ییٹے اور وہ اللہ کو یاد کرے، تو اس سے اپنے ہاتھوں کو اٹھالو۔ (ترمذی، بیہقی)
حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین صفات ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی، اللہ تعالی اس کی موت آسان کردے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ایک کمزور کے ساتھ نرمی کرنا، دوسری والدین کے ساتھ شفقت کا سلوک اور تیسری اپنے غلاموں اور کنیزوں سے حسنِ سلوک۔ (مشکوۃ شریف)
ماتحتوں سے عدل و انصاف
مزدور اور محنت کش کو اللہ پاک نے اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ملازم اور خادم بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں، لہذا یہ بھی اللہ کے دوست ہیں۔ ملازم اور خادم کے ساتھ کام اور اجرت کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے، ان سے وہی کام لیا جائے، جس کے لیے انہیں ملازم رکھا ہے، ان کی طاقت و استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ ہر شخص پر اپنے مال کی حفاظت لازم ہے۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت گھریلو ملازمین یا کام کرنے والی ماسیوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ کہیں رکھ کر بھول گئے تھے یا کسی گھر والے کی حرکت ہے۔ اس بہتان کی اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہے۔ ملازمین کے معاملے میں عدل و انصاف کا حکم ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھانا اور پہننا مملوک کا حق ہے اور اس کی طاقت سے باہر کام کی تکلیف نہ دی جائے۔ (صحیح مسلم)
امام مالک ؒبیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گائوں میں جایا کرتے تھے اور جب کسی غلام کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھتے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا، تو اسے کم کردیتے۔ حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تمہارے بھائی کو اللہ تعالی تمہارا مملوک(غلام، خادم)بنادے، اسے وہی کھلائو، جو تم کھاتے ہو اور اسے وہی پہنائو، جو تم پہنتے ہو اور ایسے کام کی اسے تکلیف نہ دو، جو اس پر غالب آجائے اور اگر غالب آنے والے کام کی تکلیف دو، تو اس کی مدد کرو۔(صحیح بخاری)
ملازم پر مال خرچ کرنا
ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور تنخواہ کے علاوہ ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستے میں انفاق کرو۔ اس پر ایک شخص نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ میرے پاس ایک دینار ہے، میں اسے کیسے خرچ کروں؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ذات پر خرچ کرو۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس شخص نے کہا میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے خادم پر خرچ کرو۔ اس کے بعد اپنی بصیرت سے انفاق کی ترتیب و ترجیح بنالو۔ (صحیح بخاری) اس حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ خانہ کے بعد اپنے ملازم پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں ملازم کی کتنی اہمیت ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے، جو ان کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
ماتحتوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا
تعلیم کی جو اہمیت اسلام میں ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقرا ء یعنی پڑھ ہے۔ گھر کے مالکان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو، جہاں تک بھی ممکن ہو، دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرور کریں۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا ثواب انہیں تاقیامت ملتا رہے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آگاہ رہو!تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (متفق علیہ)پڑھا لکھا ملازم، جاہل ملازم سے ہزار درجے بہتر ہے۔ علم کے فروغ کے لیے مالکان اور صاحبِ حیثیت افراد کی یہ کاوشیں ان کے لیے راہِ نجات بھی ہوں گی اور جنت کے حصول کا ذریعہ بھی۔اللہ تبارک تعالی ہمیں اپنے گھریلو ملازمین، خادمین اور دیگر زیرِکفالت افراد کے ساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کے جملہ حقوق بہ احسن طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں رحم کرنے، درگزر کرنے اور معاف کرنے کی صفت پیدا فرمائے(آمین یارب العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین )