تعلیم اور ریاست حیدرآباد میر عثمان علی خاں تعلیمی کارناموں کے لحاظ سے بھی سکیولر بادشاہ

   

ڈاکٹر محمد ناظم علی

’’تعلیم‘‘ تربیت کا نام ہے، تعلیم تمام شعبوں کی ماں ہے، تعلیم سے فرد کی اور ملک و قوم کی ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے، دنیا میں جتنی بھی حکومتیں بنی ہیں اور اقوام تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، تعلیم کی اہمیت اور عظمت قدیم زمانے سے محسوس کی جانے لگی ہے البتہ قدیم زمانے میں تعلیم کا دائرہ محدود تھا، لوگوں میں شعور بیدار بہت کم ہوا تھا، تعلیم فرد کی ہمہ جہت ترقی انجام دیتی ہے۔ تعلیم سے ہی اخلاقی قدریں جنم لیتی ہیں۔ آدمی انسان بنتا ہے۔ اخلاق، نیکی، شرافت، انسانیت، خلوص و محبت وغیرہ تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں، تعلیم جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ اچھے اور بُرے کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی پر گامزن کرتی ہے۔ یوروپ تعلیم کی وجہ سے دنیا میں سب سے آگے ہے، کسی ملک و قوم کیلئے تعلیم ہی سب کچھ ہے، بغیر تعلیم کے انسان پسماندہ ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی اندھیر ہوجاتی ہے۔ تعلیم سے دل، دماغ، ذہن منور و توانا ررہتے ہیں۔
اسلام میں تعلیم کی اہمیت قرآن میں جگہ جگہ اجاگر کی گئی ہے اور تعلیم کے حصول کیلئے تاکید و نصیحت کی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی آیت اقراء میں بھی تعلیم پر توجہ دینے کی بات ملتی ہے۔ تعلیم کیلئے چین کو جانا پڑے تو جائیں، تعلیم حاصل کریں، تعلیم محنت، ریاضت و مشقت چاہتی ہے۔
عرب میں اسلام کی روشنی پھیلنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی عام ہونے لگی۔ مکہ میں دارارقم مدینہ میں اصحاب صفہ، حصول تعلیم کے مراکز تھے۔ جہاں پر مذہبی اسلامی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدارس، خانقاہیں، دینی مراکز تھے۔ مکاتب، صباحی مدرسہ میں بھی اسلامی دینی تعلیم ہوتی تھی۔ کاکتیہ دور، بہمنی دور میں تعلیم کا نظم تھا۔ بدھ مت اور اشوک اعظم کے دور میں جامعات کا قیام ہوا تھا۔ نالندہ، ٹکسلایوگی درسگاہ تھی جہاں پر مختلف علوم فنون کی تعلیم دی جاتی تھی، بیدر میں خواجہ محمد گاؤں کا مدرسہ تھا، جہاں پر مختلف علوم فنون کی تعلیم کا نظم تھا۔ اس میں عالم اسلام سے دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کیلئے لوگ آیا کرتے تھے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ نے چارمینار پر تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا۔ جامع مسجد میں ایک قدیم مدرسہ قائم تھا۔ چارمینار کے انجینئر میر مومن تھے۔ انہوں نے یہاں تعلیم کے حصول کا مرکز بنادیا۔ یہاں دینی و دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی۔ آصف جاہ خاندان کے بانی قمرالدین علی خاں نے مدرسہ فاروقیہ قائم کیا۔ فخرالدین شمس الامراء نے مدرسہ فخریہ قائم کیا۔ یہاں پر دنیاوی و دینی علوم و فنون کی تعلیم کا نظم تھا۔ چوتھے نظام آصف جاہ ناصر جاہ نے میڈیکل اسکول قائم کیا جو عثمانیہ ملک کالج کا قدیم روپ تھا۔ سراج الملک سالار جنگ کے جدا اعلیٰ نے انگریزی طرز کا دواخانہ قائم کیا اور وہاں پر طبابت و طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ افضل الدولہ کے زمانے میں مختلف علوم و فنون کے مدارس قائم تھے۔ یونانی طرز پر تعلیم جسمانی ورزش کیلئے کالج قائم تھے۔ جناب میر عثمان علی خاں بہادر آصف سابع نے تعلیمی اداروں کو سکیولر اور جمہوری انداز سے عوام کیلئے کھول دیا تھا۔ میر عثمان علی پاشاہ نے کائستوں کیلئے مفیدالانام اسکول قائم کیا۔ رفاہ عام اسکول بھی سماج کے مختلف طبقات کیلئے قائم کیا گیا تھا ۔ یہاں ہندی میڈیم عروج پر تھا۔ 1937ء میں جوبلی پوسٹ آفس دیوان دیوڑھی میں دارالعلوم کالج قائم کیا۔ بعد میں کالی کمان منتقل ہوا۔ اس زمانے میں لوگ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے پنجاب جایا کرتے تھے۔ اس کے بعد نظام کالج، مدراس ریسیڈنسی کے تحت قائم ہوا تھا۔ 1884ء میں حیدرآباد میں تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ 1911ء سے 1948ء تک مدارس کا جال بچھایا گیا۔ حکومت نے چار لسانی فارمولے کے تحت مدارس چلاتے رہے۔ اُردو، ہندی، مرہٹی، انگریزی وغیرہ ان مدارس میں دینی اخلاقی اور سماجی و سائنسی علوم کی تعلیم کا بندوبست تھا۔ عالیہ کالج نوابوں جاگیر دار بادشاہوں کے بچوں کیلئے مختص تھا۔ جاگیردار کالج موجودہ بیگم پیٹ ہائی اسکول میں جاگیرداروں نوابوں کے بچے پڑھتے تھے۔ اعزا کالج میں جاگیرداروں اور نوابوں کے عزیز و اقارب پڑھا کرتے تھے۔ ہندو، لنگایت، برہمن طبقوں کیلئے لادینی و اخلاقی نصاب تھا۔ 10 رسائل مرتب کئے تھے۔ ہر رسالہ پڑھایا جاتا تھا۔ اسلام، فقہ، شریعت کا درس دیا جاتا تھا۔ مرہٹی علاقوں میں ان کے مذہب کے لحاظ سے تعلیم دی جاتی تھی۔ محبوبیہ میں لڑکیوں کی تعلیم کا نظم تھا۔ اساتذہ کی انجمنیں تھی۔ عہدیداروں، آفیسروں کو اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔ آصف سابع کے دور میں علیحدہ علیحدہ مدارس چاروں زبانوں میں تعلیم دیا کرتے تھے۔ مال والوں نے دھرماونت کالج قائم کیا تھا۔ اس طرح سے نواب میر محبوب علی پاشاہ کے دور سے تعلیم کا جال بچھایا گیا اور آصف جاہ خاندان کے بادشاہوں نے سماج کے مختلف طبقات کیلئے تعلیمی ادارے قائم کئے تاکہ وہ تعلیم سے بہرور ہوکر قوم و ملک کی خدمت کرسکے۔
آصف سابع نواب میر عثمان علی بادشاہ جو مدبر اور دانش مند بادشاہ تھے جنہوںنے رعایا کی ترقی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے ریاست کے عوام کیلئے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کیا، ان کیلئے جامعہ عثمانیہ 1917ء میں قائم ہوا۔ 1918ء سے تدریسی کام کا آغاز ہوا۔ اس طرح عثمان علی خاں نے تعلیم کی طرف توجہ کی۔ اس جامعہ میں مختلف علوم و فنون کی تعلیم اُردو میڈیم سے دی جاتی تھی۔ ایم بی بی ایس، قانون اور دیگر علوم و فنون کی درس و تدریس اردو میڈیم سے ہوتی تھی اور دارالترجمہ بھی قائم کیا تاکہ طلبہ کو اردو میں نصابی کتابیں دستیاب ہوسکے اور مختلف علوم و فنون کو اردو میں ڈھالا جاسکے۔ نواب میر عثمان علی خاں کے قائم شدہ تعلیمی ادارے 21 ویں صدی کی نسل کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ ان کے قائم کردہ ادارے آج بھی موجود ہیں۔ جامعہ عثمانیہ سے فارغ طلبہ دنیا میں اپنی خدمات انجام دے کر جامعہ کا ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں۔ میر عثمان علی خاں کے دور میں تعلیم عام ہوچکی تھی۔ مدرسے اور تعلیمی ادارے ارتقائی روپ حاصل کئے اور اعلیٰ تعلیم کی جو کمی تھی، جامعہ عثمانیہ سے پوری ہوئی ، ورنہ اس سے قبل لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے پنجاب اور مدراس جایا کرتے تھے۔ جامعہ عثمانیہ کھلتے ہی حیدرآبادیوں کا اعلیٰ تعلیمی خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور اس جامعہ نے ملک کیلئے تھنک ٹینک تیار کیا جو سماجی و سائنسی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔ آصف جاہی خاندان میں دنیاوی و دینی علوم و فنون کو فروغ حاصل ہوا اور اس کا فیض آج کی نسل کو بھی پہنچ رہا ہے۔