تلنگانہ ‘ انتخابی موسم اور حکومت

   

زندگی کا واسطہ ہے آج یوں انسان سے
ابرکا رشتہ ہو جیسے کوئی ریگستان سے
تلنگانہ میں انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ۔ بمشکل چند ماہ انتخابات کیلئے رہ گئے ہیں اور ریاست میں اس کے اثرات کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں بھی تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ ہر جماعت اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہے ۔ عوام کو راغب کرنے اور ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے منصوبے اور حکمت عملیاں تیار کی جا رہی ہیں۔ ہر گوشے سے دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ریاست میں برسر اقتدار بی آر ایس نے بھی سیاسی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے ۔ بی جے پی اپنے طور پر تیاریاں کر رہی ہے حالانکہ اس کے کیڈر کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ کانگریس پرجوش انداز میں ریاست میں اقتدار پر واپسی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے اس کے حوصلے بلند کردئے ہیں۔ تمام ریاستی قائدین میں اتحاد و اتفاق کو یقینی بنانے مرکزی قیادت کی جانب سے بھی ایک سے زائد مواقع پر اجلاس منعقد کئے گئے ہیں۔ ساری صوررتحال سے ریاست کا سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے ۔ ایسے میں بی آر ایس حکومت کی جانب سے سماج کے مختلف طبقات کو راغب کرنے کیلئے آخری لمحہ کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ جہاں دلت بندھو اسکیم کو وسعت دینے کا اعلان کیا گیا اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے وہیں بی سی طبقات کیلئے ایک لاکھ روپئے اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اور کرناٹک کے نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب حکومت نے اقلیتوں کیلئے بھی ایک لاکھ روپئے سبسڈی اسکیم کا اعلان کردیا ہے ۔ حالانکہ اس سے اقلیتوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ پہلے ہی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے سبسڈی کی اسکیم شروع کی گئی تھی ۔ سابقہ اسکیم میں قرض واپسی کی شرط تھی تاہم اب مکمل رقم سبسڈی ہوگی ۔ تاہم اگر دونوں ہی اسکیمات کو الگ رکھا جاتا تو زیادہ نوجوانوں کو فائدہ ہوتا ۔ جو لوگ قرض واپس کرنے کی استطاعت رکھتے وہ قرض واپس کردیتے اور مکمل سبسڈی اسکیم سے دیگر افراد استفادہ کرتے ۔ سابقہ اسکیم اب عملا ختم ہوگئی ہے اور صرف سبسڈی والی اسکیم پر عمل ہو رہا ہے ۔
یہ اسکیم بھی محض انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے شروع کی گئی ہے اور اس سے کتنے افراد کو فائدہ ہوگا یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ اس کے کئی مراحل ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ ابتداء میں ان مراحل کی تکمیل کیلئے تیز ی دکھائی جا رہی ہے لیکن محض اس ایک اسکیم کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ مسلمانوں کو مزید کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن پر حکومت نے گذشتہ نو برس میں کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ حکومت نے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ کیا تھا اور اب کا تذکرہ تک کرنا یا سننا حکومت کیلئے گوارہ نہیں رہ گیا ہے ۔ اس معاملے میں بی جے پی سے خوفزدہ کرتے ہوئے حکومت ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرچکی ہے ۔ اسی طرح ریاست میں وقف جائیدادوں کی جو اندھادھند لوٹ مار ہو رہی ہے اس پر بھی حکومت کے عزائم مسلمانوں کیلئے حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ کئی وزراء اور برسر اقتدار جماعت کے قائدین پر ہی اوقافی جائیدادوں پر قبضوں اور ان کی تباہی کے الزامات ہیں۔ حکومت نے وقف کمشنریٹ قائم نہیںکیا ۔ وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات نہیں دئے گئے ۔ وقف بورڈ کا ریکارڈ روم مہربند ہے ۔ اس کو کھولنے حکومت فی الحال تیار نظر نہیںآتی ۔ ریاست میں راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں دئے گئے چار فیصد مسلم تحفظات کے تعلق سے بھی عہدیداروں کی من مانی چل رہی ہے ۔ عہدیداروں کی تالبازیوں سے چار فیصد تحفظات گھٹ کر تین فیصد ہونے کے اندیشے بھی تقویت پانے لگے ہیں۔
گذشتہ نو برس میںریاست کے تمام طبقات اور خاص طور پر مسلمانوں کو فراموش کردینے والی بی آر ایس حکومت اب سماج کے تمام طبقات کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے ۔ عوام میں یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ حکومت کو جاگنے میں تاخیر ہوئی ہے ۔ اب عوام میں جو بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور ریاستی حکومت اور ارکان اسمبلی کے تعلق سے جو ناراضگی پیدا ہوئی ہے وہ شائد آخری وقت کے اقدامات سے دور نہیں ہو پائے گی ۔ اپنے طور پر حکومت عوام کی توجہ ہٹانے اور انہیںسبز باغ دکھانے کی ہر ممکن کوشش تو کر رہی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی کوششوں کو ریاست کے عوام قبول کرتے بھی ہیں یا نہیں۔