تلنگانہ ‘ ماحول بگاڑنے کی کوششیں

   

بے خطا لوگ مجھے لے گئے مقتل کو
کیسے دنیا کو یقیں میری صداقت آئے
جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جاتا ہے ویسے ویسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں۔ یہ بات سارے ملک پر صادق آتی ہے ۔ جب کبھی انتخابات کا وقت قریب آتا ہے ویسے ویسے فرقہ پرست عناصر سرگرم ہوجاتے ہیں اور معمولی سی باتوں کو بھی ایک بڑا مسئلہ بناتے ہوئے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور ہر بار بی جے پی کے قائدین کی جانب سے ماحول بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ آزمودہ حکمت عملی ہے جسے انتخابات والی ریاستوں میں اختیار کیا جاتا ہے ۔ پارٹی کے چھوٹے اور بڑے تمام ہی قائدین اس حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جبکہ بی جے پی جنوبی ہند پر توجہ دینے میں مصروف ہے اور چاہتی ہے کہ یہاںاس کا سیاسی دائرہ وسیع ہوجائے تو تلنگانہ ریاست میںبھی یہی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ویسے تو پڑوسی ریاست کرناٹک میں بی جے پی نے اسمبلی انتخابات اور اس سے قبل بھی اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کی تھی لیکن وہاں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور کانگریس نے وہاں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اب جنوب میں بی جے پی کو تلنگانہ میں کچھ امکانات نظر آرہے ہیں اور اس کے گذشتہ انتخابات میںچار ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے ۔ بی جے پی اس بار بھی اسی طرح کی کامیابی کیلئے کوشاں ہے ۔ اسی لئے ریاست میں وقفہ وقفہ سے شر انگیزی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوششیں شروع کی جاچکی ہیں۔ معمولی سے واقعات کو ہوا دیتے ہوئے ہنگامہ آرائی کرنا اور اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور فرضی و جھوٹی اطلاعات کو گشت کرواتے ہوئے ماحول خراب کیا جا رہاہے ۔ بی جے پی رائے دہندوں میں ڈر و خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ایسی کوششیں ریاست کے امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے مضر ہیں۔ بی جے پی کو ریاست کے حالات سے زیادہ اپنے سیاسی فائدہ کی فکر ہی لاحق ہے ۔
بی جے پی کے پاس جو سوشیل میڈیا ہے وہ اس کیلئے ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کے ذریعہ وہ کسی بھی ریاست میں بے چینی اور بدامنی کی فضاء پیدا کرنے میںکامیاب ہوتی ہے ۔ جھوٹی ویڈیو تیار کرتے ہوئے جھوٹی اطلاعات گشت کرواتے ہوئے سوشیل میڈیا کے ذریعہ بے چینی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے ۔ سماج میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول گرم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ معمولی سی باتوں کو ہوا دیتے ہوئے ایک بڑے مسئلہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوب میں بی جے پی کے سیاسیقدم پورے استحکام سے جمنے نہیں پائے ہیں۔ صرف کرناٹک اور کسی حد تک تلنگانہ میں بی جے پی کا سیاسی وجود ہے ۔ اس کو مستحکم کرنے کی کوشش میں یہ حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ سیاسی استحکام کیلئے جدوجہد کرنا ہر سیاسی جماعت کا کام ہے تاہم اس کیلئے جو راستہ بی جے پی کی جانب سے اختیار کیا جا رہا ہے وہ مناسب نہیں ہے ۔ ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جانی چاہئے ۔ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بی جے پی قائدین شر انگیزی میں مصروف ہیں اور چاہتے ہیںکہ انہیں کامیابی مل جائے ۔تلنگانہ کے عوام امن پسند ہیں۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی سیاست کی جا رہی ہے جو پارٹی کی منفی سوچ کا ایک ثبوت ہے ۔ ایسی سوچ کو پنپنے نہیں دیا جانا چاہئے ۔
انتخابات کے دوران کئی سطح پر نفرت کے ماحول کو گرم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پارٹی کے بڑے قائدین تک اس طرح کی بیان بازیاں کرتے ہیںجن کے ذریعہ سماج میں نفرت پھیلتی ہے ۔ ایسی کوششوںک و ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ تلنگانہ کے عوام کو ایسے عناصر اور قائدین سے چوکس رہنا چاہئے ۔ ان کی کوششوں کو سمجھتے ہوئے انہیں ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ریاست کے پرامن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کا موقع نہیںدیا جانا چاہئے ۔ عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی منفی سوچ رکھنے والوں کو ان کی تمام تر کوششوںاور ہتھکنڈوںکے باوجود اپنے ووٹ سے ناکام بنائیں۔