تلنگانہ میں تقررات اور تحفظات

   


ریاست تلنگانہ میں ان دنوں تقررات کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمتوں کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ ان کے اعلامئے جاری کئے جا رہے ہیں۔ امتحانات کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ مختلف مراحل پورے ہوتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوںمیں ایک طرح سے جوش و خروش بھی پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اپنے طور پر تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔ امتحانات کی تیاری ہو رہی ہے تو پولیس میں بھرتیوں کیلئے جسمانی مشقتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ کچھ اداروں اور تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کی رہنمائی بھی کی جا رہی ہے ۔ مسلم نوجوانوں کو تقررات کے اس عمل کا حصہ بنانے اور سرکاری ملازمتیں پانے کے قابل بنانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ تلنگانہ میں چندر شیکھر راؤ کی حکومت مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ تمام طبقات کی ہمدرد ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔ ریاست میں اقتدار پاتے ہی چار مہینے میں مسلمانوںکو بارہ فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے چندر شیکھر راؤ اپنے اس وعدہ کو فراموش کرچکے ہیں۔ وہ اب مسلم تحفظات کا ذکر کرنا تو دور کی بات ہے ذکر سننا بھی گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔ کے سی آر کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی کرسیوں سے چمٹے رہنے کی حرص میں مسلم نمائندے بھی اس مسئلہ پر زبان بند کر بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیںمسلمانوں یا مسلم تحفظات سے کوئی دلچسپی یا سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ انہیں کرسیاں یا عہدے مل گئے ہیں یا ملنے والے ہیںاسی لئے انہیں عام مسلمانوں یا ان کے مستقبل کی اور ان کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں راج شیکھر ریڈی حکومت میں شروع کئے گئے چار فیصد مسلم تحفظات کو بھی برقرار رکھنے میں حکومت کی ناکامی پر یہ لوگ زبان کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ کسی ذمہ دار سے اس مسئلہ پر نمائندگی تک بھی کرنا نہیںچاہتے ۔ ریاست میں چار فیصد مسلم تحفظات حالانکہ کانگریس کی راج شیکھر ریڈی حکومت کی دین ہے لیکن کے سی آر حکومت اس میں اضافہ کی بجائے اس کو سازشی انداز میں کم کرنے یا بتدریج ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے اور اس پر عمل آوری بھی شروع ہوچکی ہے ۔
سب سے پہلے تو نظام آباد ضلع میں 67 میڈیکل نرسیس کے تقررات میں بی سی ای زمرہ کو سرے سے غائب ہی کردیا گیا ۔ اس کو عہدیداروں یا عملہ کی غلطی قرار نہیں دیا جاسکتا حالانکہ ذمہ داران کی جانب سے ایسی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جب اس عمدا کی گئی غلطی کی نشاندہی کی گئی تو اس کو درست کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے تاہم اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ جب روسٹر سسٹم میں مسلم تحفظات کو چار فیصد سے تین فیصد کردئے جانے کا میڈیا میں انکشاف ہوا تو حکومت کے ذمہ داروں نے اس کی تردید تک گوارہ نہیں کی ۔ صرف مسلم وزیر داخلہ نے چار فیصد مسلم تحفظات کی برقرار ی کا دعوی کیا تھا ۔ تاہم اب جبکہ حکومت کی جانب سے مزید ملازمتوں کیلئے اعلامئے جاری کئے جا رہے ہیں تو ان میں بھی مسلم تحفظات کو عملا چار فیصد سے تین فیصد تک محدود کرنے کی ہر ممکن سازش کی جا رہی ہے ۔ سرکاری اعلامیہ میں ملازمتوں کی جملہ تعداد کے اعتبار سے چار فیصد کا تعین کرنے کی بجائے مختلف گول مول طریقوں سے محفوظ جائیدادوں کی تعداد دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تناسب بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ اگر تناسب یا فیصد بتادیا جائے تو عہدیداروں کی چوری پکڑی جائے گی یا پھر حکومت کے عزائم بے نقاب ہوجائیں گے ۔ اس کو چھپانے کیلئے نئے طریقہ کار اختیار کئے جا رہے ہیں تاہم ان سے بھی حکومت کے عزائم واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر حکومت کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔
سب سے پہلے تو حکومت کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ چار فیصد تحفظات کو بڑھا کر 12 فیصد کرنے کا اس کا وعدہ کیوں پورا نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کیا مسلمانوں سے کئے گئے وعدے کی کوئی اہمیت نہیںہیں ؟ ۔ کیا مسلمانوں کے ساتھ عمدا نا انصافی اور حق تلفی کا سلسلہ اب بھی جاری رہے گا ؟ ۔ اس کے بعد اب جو کانگریس حکومت کی دین چار فیصد تحفظات کسی طرح برقرار ہیں ان میںکٹوتی کیوں کی جا رہی ہے ؟ ۔ کیا عہدیداروں کی سازش ہے یا حکومت کے اشاروں پر ایسا کیا جا رہا ہے ؟ ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ محض عہدیدار اپنی من مانی سے ایسا نہیں کرسکتے اور اس کے پس پردہ حکومت ہی کارفرما ہوسکتی ہے ۔ اس پر وضاحت ضروری ہے ۔