تلنگانہ میں مسلم تحفظات پرمذاق

   

ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور متعلقہ عہدیداروں کی جانب سے مسلم تحفظات کے مسئلہ پر مذاق کیا جا رہا ہے ۔ مسلم اقلیت کو معمولی سے فائدہ سے بھی محروم کرنے کا مکمل تہئیہ کرلیا گیا ہے ۔ پہلے تو چار فیصد تحفظات کو 12 فیصد کرنے کا جو وعدہ کے چندر شیکھر راؤ نے کیا تھا وہ اس کو فراموش کرچکے ہیں۔ ابتداء میںحکومت وقفہ وقفہ سے گورنر کے خطبہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے پابند عہد رہنے کی بات کرتی تھی ۔ بتدریج گورنر کے خطبہ سے اس کا ذکر ختم کردیا گیا ۔ پھر کبھی کوئی لیڈر اس کا تذکرہ کیا کرتا تھا اور یہ جھوٹی تسلی دی جاتی تھی کہ مسلمانوںکو تحفظات فراہم کئے جائیں گے ۔ اب اس پر پارٹی کا کوئی ذمہ دار لیڈر منہ کھولنے کو تیار نہیں ہے ۔ شائد کوئی بھی مسلم تحفظات کا ذکر کرنا نہیں چاہتا ۔ جو اضافہ کرنا تھا وہ دور کی بات اب روسٹر سسٹم میں تبدیلی انتہائی خاموشی سے کردی گئی اور چار کی بجائے تین فیصد تحفظات کردئے گئے۔ اس پر حکومت کے کسی ذمہ دار نے کوئی رد عمل ظاہر نہیںکیا ۔ عہدیداروں نے اس پر سازشی پہلو سے کام کرتے ہوئے تبدیلی کردی ۔ وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی نے چار فیصد تحفظات کو برقرار رکھنے کی بات کہی تھی تاہم اب عہدیدار چار کو تین فیصد کرنے کے بعد سرے سے مسلم تحفظات ہی کو ختم کرنے کے درپہ آگئے ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے کئی شعبہ جات میں ہزاروں تقررات کا اعلان کیا گیا ۔ یکے بعد دیگرے اس کیلئے اعلامیہ بھی جاری کیا جا رہا ہے ۔ مختلف مراحل میںامتحانات کا انعقاد بھی عمل میںآنے والا ہے ۔ ان تقررات میںچار فیصد تحفظات کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا تاہم نظام آباد ضلع میں ‘ جو مسلم آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ضلع کہا جاسکتا ہے ‘ میڈیکل نرسیس کا تقرر عمل میں لایا گیا اور اس میںمسلم تحفظات کو عملا ختم ہی کردیا گیا ۔ عہدیداروں نے انتہائی منظم انداز میں یہ سارا عمل مکمل کرلیا ہے اور کسی کو شبہ کی گنجائش بھی رہنے نہیںدی ۔ تاہم جب اس کی نشاندہی کرکے ان سے سوال کیا گیا تو انہوںنے جواب دینے سے عمدا گریز کیا ۔ محکمہ اقلیتی بہبود بھی انتہائی ناکارہ اور مسلمانوںکیلئے چھٹی انگلی ہی بن کر رہ گیا ہے ۔
نہ کسی عہدیدار نے اس پر جواب دینے کی زحمت گوارا کی اور نہ ارباب مجاز اس پر متعلقہ حکام سے کوئی وضاحت طلب کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ حکومت بھی اس معاملہ پر مسلسل خاموشی اختیار کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے والے عہدیداروں کی بالواسطہ پشت پناہی کر رہی ہے اور ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ آیا حکومت ہی نے تو ان عہدیداروں کو خاموشی کے ساتھ چار فیصد تحفظات کو ختم کرنے کی ہدایت تو نہیں دی ؟۔ محکمہ اقلیتی بہبود میں جو عہدیدار ہیں وہ تو صرف اپنی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں۔ انہیں جن کاموں کی ذمہ داری دی گئی ہے شائد ہی وہ کام کئے جاتے ہیں۔ صرف اقرباء پروری یا پھر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔ ان عہدیداروں میں احساس کمتری بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ دوسرے محکمہ جات کے عہدیداروں کی کارستانیوں پر کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ رکنے کی بجائے مزید دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور تو ایسا لگتا ہے کہ محض نام کے وزیر ہیں۔ انہیں شائد اقلیتی مسائل سے واقفیت بھی نہیں ہے اور انہیں حل کرنے کے تعلق سے تو انہوں نے کبھی ذمہ داری پوری نہیں کی ۔ کبھی کبھار وزیر داخلہ ہی مسلمانوں کے مسائل میں مداخلت کرتے ہوئے کوئی وضاحت کردیتے ہیں۔ اقلیتی بہبود کے وزیر تو دکھاوے کیلئے بھی کوئی اقدام نہیں کرتے اور نہ ہی وہ عہدیداروں سے کوئی سوال کرتے ہیں۔
تلنگانہ میں مسلم تحفظات کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ کانگریس کی وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت نے مسلمانوں کو یہ تحفظات فراہم کئے تھے ۔ ابھی تک اس پر عدالتی کشاکش بھی جاری ہے ۔ ایسے میں جو معمولی سا فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہو رہا ہے اگر حکومت اس کو بھی یقینی نہیں بناتی اور اس پر بھی مذاق کیا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ تمام اہمیت کے حامل مسائل پر راست جائزہ لے کر احکام جاری کرنے والے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کو خود شخصی طور پر س کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مسلمانوں کی حق تلفی نہ ہو اور حق تلفی کرنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ مسلمانوں میں اعتماد بحال کرنے کیلئے یہی ایک واحد راستہ ہے ۔