تلنگانہ میں کانگریس کا مستحکم موقفبی آر ایس کی مقبولیت میں گراوٹ

   

اجئے گڈاورتھی
بھارتیہ راشٹریہ سمیتی ( بی آر ایس ) جسے ماضی میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی ( ٹی آر اسی ) کے نام سے جانا جاتا تھا اب ریاست تلنگانہ میں اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہے حالیہ عرصہ کے دوران اس کی مقبولیت میں اس قدر کمی آئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ آئندہ ماہ کی 30 تاریخ کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ان انتخابات کے سلسلہ میں حالیہ عرصہ کے دوران جو ایگزٹ اور اوپنین پولس منظر عام پر آئے ہیں ان سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ بی آر ایس اقتدار سے محروم ہونے والی ہے ایک طرح سے اس کی عوامی مقبولیت خطرناک حد تک گھٹ گئی ہے جبکہ کانگریس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے والی ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں ہمیں نہ صرف تبدیلیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ 2024 کے عام انتخابات پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنے کیلئے وجوہات کو قریب سے اور بڑے ہی غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 2014 میں علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی اور حسن اتفاق سے اُسی سال مرکز میں بی جے پی کو عروج حاصل ہوا اور زعفرانی جماعت نے مرکز میں حکومت بھی بنائی ۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ۔ کے سی آر نے کسانوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے ایک منفرد رعیتو بندھو اسکیم شروع کی اور زرعی اراضی کے مالکین کو فی ایکڑ 5000 روپئے امداد بھی منظور کی بعد میں اسی اسکیم کے طرز پر دلت بندھو اسکیم کا آغاز کیا جس کا مقصد دلت خاندانوں کیلئے فی خاندان 10 لاکھ روپئے منظور کئے تاکہ دلت اس رقمی امداد سے اپنا خود کا کاروبار شروع کرسکیں ۔ جب ان کی دوسری میعاد شروع ہوئی تب غلط طرز حکمرانی اور سمت سے بھٹکنے کے مسائل پیدا ہوئے اگرچہ کے سی آر نے کئی بہبودی اسکیمات کا سلسلہ جاری رکھا ہے اس کے باوجود تلنگانہ میں عوامی موڈ میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ بی آر ایس کا زوال سرپرستی کی سیاست کی جانب سے فراہم کردہ امدادی راحت سے عزت نفس اور عظیم تر سماجی مساوات پر مبنی سیاست کی طرف تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے عوام میں کے سی آر کی شہبیہ ایک مغرور اور کسی کوبھی جوابدہ نہ دینے والے سیاسی رہنما کے طور پر بنتی گئی اور احتجاج کی علامت کے طو رپر بھی وہ منظر عام پر آئے لیکن نئی تشکیل شدہ ریاست تلنگانہ میں انہو ںنے ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو سر اُبھارنے کا موقع نہیں دیا صرف یہی نہیں بلکہ کے سی آر نے خود کو علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کیلئے چلائی گئی تحریک کے اہم لیڈران سے بھی دور رکھا ان سے فاصلہ بنائے رکھا یہاں تک کہ تحریک تلنگانہ میں اہم کردار ادا کرنے والے پروفیسر کودنڈارام کو بھی گرفتار کروایا ۔ کودنڈارام اب تلنگانہ جنا سمیتی کے لیڈر اور اس کے سربراہ ہیں ۔ حال ہی میں کئی ایک مقبول عوامی چہروں جیسے سابق پروفیسر جی ہرگوپال اور دیگر کے خلاف قانون انسداد غیرقانونی سرگرمیاں کے تحت مقدمات درج کروائے جو مختلف گوشوں میں احتجاجی مظاہروں کا باعث بنا ۔ کے سی آر کے غرور و تکبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ میں عوامی کاز کیلئے اکثر و بیشتر تحریکوں کا اہم حصہ رہے ، افسانوی شخصیت یلادپر غدر کو جن کا حال ہی میں دیہانت ہوا کے سی آر سے ملاقات کا وقت لینے کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا اور پھر کے سی آر نے ان سے ملنے سے انکار ہی کردیا۔ کے سی آر کا غیرضروری اور بلاجواز غرور و تکبر ان ہی علاقائی جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بنا جنہیں انہیں اقتدار میں لایا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنی پارٹی کا نام تلنگانہ راشٹرا سمیتی سے بدل کر بھارتیہ راشٹرا سمیتی رکھ دیا دراصل بی آر ایس کی شکل میں وہ ٹی آر ایس کو ایک قومی پارٹی بنانے کی خواہش ظاہر کی اور ایسا لگتا ہے کہ ٹی آر ایس کا بی آر ایس بننا ان کیلئے خودکشی کے مترادف ثابت ہوا کیونکہ ٹی آر ایس نام سے علاقائی شناخت کے ساتھ ایک جذباتی تعلق خاطر جڑا ہوا تھا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جذباتی تعلق ختم ہوگیا اور کے سی آر کی اسی غلطی سے فائدہ اُٹھانے اور اس جگہ کو پُر کرنے یا اس جگہ ( علاقائی جذبہ ) پر قبضہ کرنے کی بی جے پی نے کوشش کی اور اس نے علاقائی تصور کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھی کوشش کی یہ اور بات ہیکہ بی جے پی کی یہ حکمت عملی تلنگانہ میں کام نہ کرسکی ۔ حالانکہ ذات پات پر مبنی ہندو متوسط طبقات کو راغب کرنے اس کی کوشش جاری ہیں ۔ بی جے پی نے دیگر پسماندہ طبقات میں اپنی مقبولیت کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کیا اس نے سماجی انصاف کو فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے یا اس کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ بی جے پی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں شرمناک شکست سے بھی کوئی سبق نہیں لیا جہاں اس نے خود بی ایس یدی یورپا کی قیادت کو خطرہ میں ڈالا اور اس کی اہمیت کو ختم کردیا پھر اس نے راجستھان میں وسندھرا راجے جیسی لیڈر کو بھی اُبھرنے کی اجازت نہیں دی ۔ بی جے پی یقیناً اپنے دائرہ اقتدار کو غیر بی جے پی ریاستوں میں بھی وسعت دینے کی خواہاں ہے لیکن صرف اور صرف مودی کے واحد مقبول عام چہرہ کے ساتھ وہ جنوبی ہند میں بھی شمالی اور مغربی ریاستوں کی طرح مودی ہے تو ممکن ہے کی پالیسی اپنانے کی خواہاں ہے ۔ بنڈی سنجے کو ہٹا کر مرکزی وزیر کشن ریڈی کو ریاستی بی جے پی کا صدر بنایا گیا جس کے بعد بی جے پی اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں ناکام رہی ۔ عام خیال یہی ہے کہ اب بی جے پی ، بی آر ایس اور ایم آئی ایم کانگریس کی مقبولیت اور اس کی کامیابی کو روکنے ملکر کام کررہے ہیں اس طرح اب ریاست میں کانگریس کا مقابلہ بی آر ایس ، بی جے پی اور مجلس سے ہے اب عوام اسے تلنگانہ کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے والی پارٹی کے طور پر دیکھنے لگے ہیں اس کے علاوہ ٹی جے ایس کے سربراہ کودنڈرارام نے بھی کہا ہیکہ وہ کانگریس کے ساتھ ملکر کام کریں گے۔