تلنگانہ میں کے سی آر کیلئے کانگریس بڑا چیلنج

   

امرت بی ایل ایس
پانچ سال کا عرصہ خاص طور پر ’’ سیاسی شعبہ ‘‘ میں ایک طویل عرصہ ہوسکتا ہے ۔ 2018 اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد بھارت راشٹرا سمیتی اور اس کے سربراہ کے چندرشیکھرراو کا ریاست تلنگانہ پر سیاسی غلبہ مکمل دکھائی دیا لیکن صرف چند ماہ میں 2019 کے عام انتخابات میں بی آر ایس ریاست میں پارلیمنٹ کی جملہ 17 نشستوں میں سے صرف نصف حلقوں میں کامیابی حاصل کر پائی اس کے برعکس کانگریس اور بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کی بہ نسبت کہیں زیادہ بہتر مظاہرہ کیا ۔ بعد کے برسوں میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرتی نظر آئیں ایک ایسا بھی مرحلہ بھی آیا جب بی جے پی ، بی آر ایس کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن گئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ ریاست میں بی جے پی کی سب سے بڑی حریف جماعت بی جے پی ہے لیکن اب حال یہ ہوگیا ہیکہ وہ تیسرے مقام پر چلی گئی ہے ۔ کانگریس ماضی میں جس کے 12 ارکان اسمبلی نے انحراف کرتے ہوئے اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے بی آر ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اب بی آر ایس کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن کر اُبھری ہے ۔ ایک اوپنین پول کے مطابق ( اگر اس اوپنین پول پر یقین کیا جائے تو ) کے سی آر ، چیف منسٹر اُڈیشہ نوین پٹنائیک کی طرح چیف منسٹر کی کرسی پر بڑے آرام کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک فائز رہنے کی اُمید رکھتے تھے اب ہندوستان کی اس سب سے کم عمر ریاست ( تلنگانہ ) پر اپنا اقتدار برقرار رکھنے لڑائی پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ واضح رہے کہ 30 نومبر کو ریاست تلنگانہ میں رائے دہی ہوگی ( ویسے بھی تلنگانہ اسمبلی کے انتخابی نتیجہ کا ملک کی دیگر چار ریاستوں مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھیتس گڑھ اور میزورم کے ساتھ 3 ڈسمبر کو اعلان کیا جائے گا ) سال 2014 میں جب سے علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی ان مسائل پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی گئی جو علحدہ ریاست کی تحریک میں اُٹھائے گئے تھے جیسے روزگار کی فراہمی ، کسانوں کو بالخصوص نیم بنجر علاقوں کے کسانوں کو آبپاشی سہولتوں کی فراہمی اور ریاست کے کمزور و پسماندہ طبقات کی ترقی وغیرہ وغیرہ ۔ گزشتہ دہے کے دوران کے چندرشیکھرراو نے کئی ایک ترقیاتی پراجکٹس اور بہبودی اسکیمات شروع کئے اور حال ہی میں جاری کردہ بی آر ایس کے انتخابی منشور میں بھی انہوں نے ان پراجکٹس اور بہبودی اسکیمات کو آگے بڑھانے کا وعدہ کیا ۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے انتخابی منشور میں ریاست کے 93 ہزار بی پی ایل خاندانوں ( خطہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں )کو پانچ لاکھ روپیہ کے انشورنس کور سے لیکر نظام تقسیم عامہ کے تحت سوپر فائن رائس ( اعلی معیاری چاول ) کی فراہمی ( یہ چاول تمام راشن کارڈ ہولڈر کو فراہم کیا جائے گا ) انہوں نے انتخابی منشور میں بزرگ شہریوں ( سینئر سٹیزنس ) کے وظائف میں اضافہ ، تنہا خواتین اور معذورین کے پنشن میں بھی اضافہ کا وعدہ کیا ہے ۔ ان کے انتخابی منشور میں کسانوں اور خواتین کی بہبود کیلئے بھی بہت سارے وعدے کئے گئے جو دراصل ان کا متبادل قومی ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے انہوں نے اکٹوبر 2022 میں اپنی پارٹی کو قومی سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ اگرچہ بی آر پی میں کچھ ایسے قائدین شامل ہیں جو مقامی سطح پر اپنا رعب دبدبہ رکھتے ہیں ،اس کے باوجود ان کی مقبولیت کے سی آر ان کے ارکان خاندان ( جیسے فرزند کے ٹی آر اور بھانجہ ٹی ہریش راو ) سے کم ہے انتخابات کے دوران بی آر ایس، کے سی آر اور فیملی کی مقبولیت پر انحصار کرتی ہے اگر دیکھا جائے تو فی الوقت ریاست میں حکومت مخالف لہر واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کے سی آر کو اب بھی ایسے لوگوں کی تائید و حمایت حاصل ہے جو علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کا سہرہ کے سی آر کے سرباندھتے ہیں جن کے خیال میں کے چندرشیکھرراو کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی علحدہ ریاست تلنگانہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں علحدہ تلنگانہ کی تشکیل سے متعلق یہ جذبہ اور یہ احساس اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ سیاست تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ریاست میں بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ٹکر کا مقابلہ ہے ۔
جنوبی ہند کی ایک اہم ریاست کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ میں بھی کانگریس کو ایک نئی طاقت اور توانائی حاصل ہوئی ہے اور ملک کی اس قدیم ترین پارٹی نے ریاست تلنگانہ میں بھی کرناٹک میں اپنائی کئی حکمت عملی کو اپنالیا ہے اس نے اب تک عوام کیلئے 6 ضمانتوں ( طمانیت ) کا اعلان کیا ۔ جس میں خواتین کسانوں کی ہر طرح مدد امکنہ اور طلبہ کیلئے حصول تعلیم کی خاطر مالی اعانت وغیرہ شامل ہیں ) تاہم تلنگانہ میں ذات پات پر مبنی سروے سے متعلق اپنے مطالبہ پر کانگریس خاموش دکھائی دیتی ہے کیونکہ کانگریس نے سوائے میزورم کے جن دیگر ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہاں ذات پر مبنی سروے کروانے کا وعدہ کیا ہے ) تاکہ یہ جانا سکے کہ آبادی کا کتنا حصہ او بی سی ، دلت اور قبائیلیوں پر مشتمل ہے اور فیصلہ سازی میں ان کا کیا حصہ ہے۔ کانگریس صدر نے کے سی آر کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے اسی طرح کی مشق ( ذات پر مبنی سروے ) کروانے کا مطالبہ کیا لیکن اسے انتخابی موضوع بنانے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ تلنگانہ میں اکثر کانگریس کا ریڈی پارٹی ( ریڈیوں کی جماعت ) کی حیثیت سے حوالہ دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں اعلی ذات کا غلبہ ہے ۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس نے اپنے امیدواروں کی جو پہلی فہرست جاری کی ہے ان میں ریڈی طبقہ کے امیدواروں کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔ مثال کے طور پر پہلی فہرست میں شامل 55 امیدواروں میں سے 15 ریڈی ہیں ۔ یہی وجہ ہیکہ تلنگانہ میں کانگریس اپنے سابق صدر پنالہ لکشمیا سے محروم ہوچکی ہے انہوں نے بی آر ایس میں شمولیت اختیار کی ۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہیکہ 2014 میں کے سی آر حکومت نے ایک غیرمعمولی خصوصی سروے کروایا تھا جس میں نہ صرف ذات پات سے متعلق بلکہ عوام کا سماجی ، اقتصادی ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا تھا ۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں او بی سیز کی تعداد 53.5 فیصد ، دلتوں کی آبادی 18.5 فیصد اور درج فہرست قبائیل کی آبادی 11.7 فیصد جبکہ عام زمرہ بشمول مسلمانوں کی آبادی 16 فیصد ہے ۔ دسری طرف ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی گزشتہ ایک سال کے دوران پرجوش نظر آنے کے باوجود اب اپنی سمت اور توجہ کھوچکی ہے حالانکہ اس نے عظیم تر مجلس بلدیہ حیدرآباد اور بعض حلقوں کے ضمنی انتخابات میں اچھا مظاہرہ کیا تھا ۔ بی جے پی میں اس کے لیڈر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جہاں تک مجلس کا سوال ہے اس کے اپنے حلقہ ہیں اور حیدرباد کے پرانا شہر تک ہی وہ محدود ہے ۔ پچھلے دو انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی وہ اپنی ساتوں نشستوں کی برقراری کی توقع رکھتی ہے حالانکہ اس نے مہاراشٹرا ، بہار ، مغربی بنگال اور گجرات تک اپنی انتخابی سرگرمیوں کو وسعت دی ہے تاہم تلنگانہ میں خود کو پرانا شہر تک محدود رکھا ہے دراصل اس کی یہ پالیسی بی آر ایس کے ساتھ طئے پائی مفاہمت کا حصہ ہے اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے کے سی آر کی بھرپور تائید و حمایت کی خاص طور پر انتخابی منشور کی اجرائی کے بعد ۔ دوسری جانب ٹی ڈی پی ، وائی ایس آر تلنگانہ بھی مقابلہ میں ہیں لیکن ان سے زیادہ اثر پڑنے کے امکانات نہیں پائے جاتے ۔