تلنگانہ کی انتخابی مہم کا اختتام

   

جھلملاکر بجھ گئی شمعِ اُمید
چاہتے کیا تھے مگر کیا ہوگیا
تلنگانہ میں بھی آج انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہونچ گئی ۔ ملک کی پانچ ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا تلنگانہ آخری ریاست تھی جہاں پولنگ ہونی ہے ۔ آج رائے دہی کے اختتام کے ساتھ ہی پولنگ کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ حالانکہ ملک کی دوسری چار ریاستوں میں بھی انتخابی مہم پورے زور و شور کے ساتھ چلائی گئی ۔ جارحانہ تیور کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے رائے دہندوں پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی ۔ ہر ریاست کے مقامی مسائل اور ماحول کے اعتبار سے پروگرامس کا انعقاد عمل میں لا یا گیا ۔ چار ریاستوں میزورم ‘ چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ووٹ بھی ڈالے جاچکے ہیں اور اب جمعرات کو تلنگانہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ تمام پانچ ریاستوں میں نتائج کا اعلان 3 ڈسمبر کو ہوگا ۔ جہاں دوسری ریاستوں میں انتخابی مہم میں شدت اور جارحانہ تیور دکھائی دئے وہیں تلنگانہ کی انتخابی مہم میں بھی یہی شدت اور تیزی دکھائی دی ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے تیور جارحانہ ہوتے گئے تھے ۔ تمام جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو الزامات عائد کئے اور جو تنقیدیں کی گئیں وہ دوسری ریاستوں سے مختلف تھی ۔ ہر جماعت نے اپنے طور پر رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے ۔ مختلف اسکیمات اور ترقیاتی کاموں کے وعدے کئے گئے ہیں۔ سابقہ میں کئے گئے کاموں کا تذکرہ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ رائے دہندوں کو ہر طریقہ سے رجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ ریاست میں برسر اقتدار بی آر ایس کی جانب سے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگادی گئی جبکہ کانگریس نے اقتدار پر قبضہ کے مقصد سے اپنی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ کانگریس اور بی آر ایس میں راست ٹکراؤ کی کیفیت میں بی جے پی انتخابی منظر نامہ سے غائب ہی دکھائی دی اور ا س نے لمحہ آخر میں محض اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے ۔ ریاست میں اصل مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔
ریاست میں جہاں کانگریس نے عوام سے کئی انتخابی وعدوں کی بارش کردی اور کئی طرح کے اعلانات کئے وہیں بی آر ایس نے بھی پیچھا نہیں چھوڑا ہے ۔ بی آر ایس کی جانب سے بھی اپنی سابقہ دو معیادوں میں کئے گئے کاموں کی یاد دہانی کروائی گئی تو تیسری بار انتخاب کی صورت میں عوام سے کئی وعدے کئے گئے ہیں۔ کانگریس نے جہاں بی آر ایس پر کرپشن میں ملوث رہنے اور خاندان کو ہی فائدہ پہونچانے کے الزام عائد کئے اور کالیشورم پراجیکٹ کی مثال پیش کی تو بی آر ایس کی جانب سے کانگریس پر عوام کو گمراہ کرنے اور حقائق سے بعید وعدے کرنے کا الزام عائد کیا ۔ کانگریس اور بی آر ایس دونوں ہی جماعتوں نے ایک دوسرے پر بی جے پی سے ساز باز کا الزام عائد کیا اور بی جے پی دونوں کے درمیان محض تنقیدوں کا سامان بن کر رہ گئی تھی ۔ کانگریس کو انتخابی مہم میں عوام کے بہتر رد عمل سے امیدیں پیدا ہوگئی ہیں اور پارٹی کو یقین ہے کہ وہ تلنگانہ میں اقتدار حاصل کر رہی ہے ۔ وہیں بی آر ایس بھی یہ دعوے کر رہی ہے کہ اسے اقتدار پر ریاست کے عوام برقرار رکھیں گے ۔ جس طرح سے دونوں جماعتوں نے مہم چلائی اس نے ریاست کے رائے دہندوں کیلئے ایک موقع فراہم کردیا ہے ۔ عوام ایسا لگتا ہے کہ اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کرچکے ہیں اور وہ جمعرات کو ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی حلقوں کو حیرت زدہ کرسکتے ہیں۔ سیاسی منظرنامہ پر اب اضطراب آمیز سناٹا چھانے لگا ہے ۔
انتخابی مہم کی خاص بات یہ رہی کہ بی آر ایس کی جانب سے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ‘ ریاستی وزراء کے ٹی راما راؤ ‘ ٹی ہریش راؤ اور دوسرے قائدین نے ریاست کے ہر اسمبلی حلقہ تک رسائی کی کوشش کی ۔ وہیں کانگریس کی جانب سے بھی تمام بڑے قائدین نے بڑھ چڑھ کر انتخابی مہم میں حصہ لیا ۔ صدر پردیش کانگریس اے ریونت ریڈی نے تقریبا ساری ریاست کا تن تنہا احاطہ کیا اور رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ وہیں مرکزی قائدین راہول گاندھی ‘ پرینکا گاندھی ‘ پارٹی صدر ملکارجن کھرگے اور دوسروں نے بھی طوفانی انتخابی مہم چلائی ہے ۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میںہے جو جمعرات کو ووٹنگ مشین میں قید ہوجائیگا ۔