تلنگانہ کے باہر کے سی آر کا پہلا جلسہ

   

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ بالآخر قومی سیاسی سفر کا آغاز کرچکے ہیں اور انہوں نے تلنگانہ کے باہر اپنے پہلے سیاسی جلسہ کا ناندیڑ مہاراشٹرا میںانعقاد عمل میںلایا ۔ کے سی آر نے قومی سیاسی عزائم کے ساتھ اپنی علاقائی جماعت تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو قومی سیاسی جماعت میں تبدیل کرتے ہوئے اس کا نام بھارت راشٹرا سمیتی کردیا تھا اور انہوں نے قومی سطح پر ایک سرگرم سیاسی رول ادا کرنے کے ارادوں کا اعلان کیا تھا ۔ ٹی آر ایس کو بی آر ایس میں تبدیل کرنے کے بعد پڑوسی ریاست آندھرا پردیش کی سرحد کے قریب کھمم میںجلسہ عام کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ تاہم یہ جلسہ بھی تلنگانہ میں ہی تھا ۔ آج پہلی مرتبہ چندر شیکھر راؤ قومی سیاست کے عزائم کے ساتھ تلنگانہ کے باہر سیاسی سفر کا آغاز کرچکے ہیں اور انہوں نے تلنگانہ کے باہر پہلے جلسے کا اہتمام کیا ہے ۔ حالانکہ یہ جلسہ بھی تلنگانہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ یہ تلنگانہ کی سرحدات کے باہر تھا ۔ اس جلسہ کے ذریعہ کے سی آر نے بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ دعوی کیا کہ وہ ملک میں کسانوں کی سرکار چاہتے ہیں۔ انہوں نے ’ اب کی بار ۔ کسان سرکار ‘ کا نعرہ دیا ہے ۔ کے سی آر نے مہاراشٹرا کے عوام کو رجھانے کیلئے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈ کر ‘ چھترپتی شیواجی اور دوسرے قائدین کا تذکرہ کیا ۔ یہ مہاراشٹرا کے عوام کو رجھانے کی کوشش تھی ۔ چندر شیکھر راؤ نے اپنے اب تک کے اقدامات کے ذریعہ یہ واضح کردیا ہے کہ وہ احتیاط کے ساتھ اور نپے تلے انداز میں قومی سیاسی سفر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں لیکن وہ عملی طور پر اپنی پارٹی کو وسعت دینے اور دوسری ریاستوں میں بھی سرگرمیوں کا آغاز کرنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ اب جبکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے اور ایک سال ہی باقی ہے ایسے میں کے سی آر کے آئندہ اقدامات قابل توجہ ہونگے اور ان کا سیاسی اہمیت کے ساتھ جائزہ لینا ضروری ہوگا ۔
ابھی تک کے سی آر نے قومی سیاست کے تعلق سے اپنے منصوبوں اور عزائم کا جس رفتار سے اظہار کیا ہے وہ کافی نہیں کہی جاسکتی ۔ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے اور ملک کی کئی ریاستوں میں ہر مرحلے میں پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالے جاسکتے ہیں۔ ایسے میں تلنگانہ کے باہر پارٹی کو عوام کے درمیان لانے کیلئے کے سی آر اور بی آر ایس کو سیاسی سرعت کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ اپنے عزائم اور منصوبوںکو واضح کرنا ہوگا ۔تلنگانہ کے باہر ابھی تک صرف آندھرا پردیش میں بی آر ایس کے ریاستی صدر کا تقرر کیا گیا ہے ۔ تلگو زبان کی یکسانیت کی وجہ سے آندھرا پردیش میں فوری طور پر ایسا کرنا ممکن ہوسکا ہے تاہم دوسری ریاستوں کے قائدین کے تعلق سے ابھی یہ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ بی آر ایس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ حالانکہ آج ناندیڑ میںمہاراشٹرا کے قائدین نے بھی بی آر ایس کے جلسہ میں شرکت کی ہے تاہم ان میں کوئی بھی سرگرم اور عوام کے ایک بڑے طبقہ پر اثر رکھنے والا قائد نہیں دیکھا گیا ہے ۔ مختلف جماعتوں کے نظرانداز کردہ اور پچھلی صفوں کے قائدین ضرور بی آر ایس کے ساتھ آسکتے ہیں لیکن عوامی حلقوں میں اثر رکھنے والے قائدین کی شمولیت کے بغیر بی آر ایس اپنے قومی سیاسی عزائم کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی ۔ اس کے علاوہ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں علاقائی جماعتیں سرگرم ہیں اور مستحکم بھی ہیں ۔ ایسے میں بی آر ایس اپنا حلقہ اثر کس حد تک وسیع کر پائے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔
تلنگانہ کے باہر کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کی صرف ابتداء ہے ۔ اس سفر میں پارٹی کیلئے جہاں کچھ ظاہری کامیابیاں بھی مل سکتی ہیں وہیںاسے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ صرف کانگریس یا بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سیاسی سفر کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ۔ سارے ملک کیلئے منصوبوں اور پروگرامس کا اعلان کرنا ہوگا ۔ دوسری ہم خیال جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا ہوگا اور ان سے اتحاد بھی کرنا ہوگا ۔ سیاسی داؤ پیچ کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے کیلئے پوری احتیاط جہاں ضروری ہے وہیں حوصلہ مندانہ اور جری فیصلے بھی کرنے ہونگے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ چندر شیکھر راؤ کی قیادت والی پارٹی اپنے قومی سیاسی سفر کو کس رفتار کے ساتھ اور کس سمت میں آگے بڑھا پاتی ہے ۔