تلگودیشم ‘ بی جے پی ‘ جنا سینا اتحاد

   

پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں بالآخر تلگودیشم پارٹی اور جنا سینا پارٹی کا بی جے پی سے اتحاد ہوچکا ہے ۔ بی جے پی کسی طرح سے ان دونوں جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوچکی ہے کیونکہ بی جے پی کو یہ احساس تھا کہ وہ جنوب میں کرناٹک میں شکست کے بعد کسی اور ریاست میں کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ ویسے بھی سوائے کرناٹک کے بی جے پی کسی اور جنوبی ریاست میں مستحکم موقف نہیں رکھتی ۔ تلنگانہ میں بی جے پی ویسے تو اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس میں اسے ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے ۔ اب جبکہ آندھرا پردیش میں لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی کے بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور مرکز میں تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے کیلئے بی جے پی مسلسل جدوجہد کر رہی ہے ایسے میں آندھرا پردیش میں اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی ۔ تلگودیشم پارٹی پہلے بھی بی جے پی سے اتحاد کرچکی تھی تاہم 2018 میں اس نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔ اس بار بھی چندرا بابو نائیڈو کو ابتداء سے بی جے پی سے اتحاد کرنے کا خیال نہیں تھا لیکن بی جے پی نے آندھرا پردیش میں جنا سینا پارٹی سربراہ پون کلیان کو استعمال کیا اور پون کلیان کے ذریعہ چندرا بابو نائیڈو کو مجبور کیا کہ وہ بی جے پی سے اتحاد کیلئے تیار ہوجائیں۔ ویسے بھی تلگودیشم پارٹی ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ تقسیم ریاست کے بعد ایک معیاد کیلئے پارٹی یہاں اقتدار پر تھی تاہم دوسری بار جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے تلگودیشم کو شکست فاش دی تھی ۔ اس بار چندرا بابو نائیڈو اقتدار پر واپسی کیلئے کوشاں ہیں اور اس کیلئے وہ کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بالکل کمزور موقف رکھنے والی بی جے پی سے بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ بذات خود وہ اس فیصلے کیلئے پوری طرح سے تیار نہیں تھے لیکن پون کلیان کے دباؤ کے آگے وہ جھکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پون کلیان فلم اداکار ہونے کی وجہ سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ کچھ فیصد ووٹ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
تلگودیشم پارٹی نے بھلے ہی اپنے طور پر اچھا فیصلہ کرلیا ہو اور اسے امید ہو کہ اسے ریاست میں اقتدار حاصل ہوگا تاہم یہ حقیقت ہے کہ آندھرا پردیش کی اقلیتیں بھی اب تلگودیشم سے دور ہوجائیں گی ۔ بی جے پی جس طرح سے سارے ملک میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی مہم کا راست یا بالواسطہ طور پر حصہ بنی ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ دعوی سے کہا جاسکتا ہے کہ اقلیتیں نہ بی جے پی کا ساتھ دیں گی اور نہ ہی ایسی جماعت کو ووٹ دینے کیلئے تیار ہونگی جو بی جے پی کے ساتھ اتحاد و مفاہمت کرلے ۔ تلگودیشم کو اس سے پہلے بھی بی جے پی سے اتحاد کے نتیجہ میں اقلیتوں کی تائید اور ان کے ووٹ سے محروم ہونا پڑا تھا اور ایک بار پھر اقتدار کے لالچ میں چندرا بابو نائیڈو نے دباؤ میں آکر جو فیصلہ کیا ہے وہ آندھرا پردیش کی اقلیتوں کو مایوس کرنے کے مترادف ہی ہے ۔ اس کے علاوہ چندرا بابو نائیڈو اس حقیقت کو بھی فراموش کرچکے ہیں کہ گذشتہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں انہیں شکست دینے کیلئے بی جے پی نے وائی ایس آر کانگریس کی کھل کر مدد کی تھی ۔ ہر طرح سے اس کی حمایت کرتے ہوئے نائیڈو کو کنارہ پر کردیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ متحدہ آندھرا پردیش میں بھی بی جے پی نے تلگودیشم سے اتحاد کرتے ہوئے ریاست میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت اسے کامیابی نہیں مل پائی تھی ۔ اس بار چندرا بابو نائیڈو اقتدار کی امید اور آس میں دوبارہ بی جے پی کے ساتھ ہوئے ہیں لیکن انہیں اس کا زیادہ فائدہ ملنے کا امکان نہیں ہے ۔
چندرا بابو نائیڈو کا بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے اس لئے بھی درست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بی جے پی کی روایت رہی ہے کہ وہ جس کسی علاقائی جماعت سے اتحاد کرتی ہے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے کے بعد سب سے پہلے اپنی حلیف جماعت ہی کو نشانہ بناتی ہے ۔ اسی جماعت میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور پھر سیاسی میدان پر قبضہ کرلیتی ہے ۔ بی جے پی جنوب میں عوامی تائید سے محروم ہے ۔ اسی لئے چندرا بابو نائیڈو اور پون کلیان کا سہارا لیتے ہوئے اس نے قدم جمانے کے منصوبہ پر عمل شروع کردیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اور تلگودیشم اپنے اپنے مقاصد میںکس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔