جب دوسرے ’’مسلم خاتون بل‘‘ نے مسابقتی فرقہ واریت کو فروغ دیا

   

ہندوستان، ابھی تک راجیو گاندھی کی جانب سے 1986ء میں کی گئی خطا کو جھیل رہا ہے

عارف محمد خان
(سابق مرکزی وزیر )

25 فروری 1986ء کو اس وقت کے وزیر قانون برائے ہند نے ’’مسلم ویمن بل‘‘ کو لوک سبھا میں متعارف کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس بل کو متعارف کروانے کا مقصد سپریم کورٹ کے شاہ بانو کیس میں دیئے گئے 23 اپریل 1985ء کے فیصلہ کی صورت گری کو بدل دینا تھا۔ اس تحریک نے زبردست عمل و ردعمل سابق سپریم کورٹ جج وی آر کرشنا ایّر جو شعبہ انصاف میں شمولیت سے پہلے کیرلا میں کمیونسٹ حکومت کے وزیر قانون رہے، مذکورہ بل کے خلاف اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کو سخت الفاظ میں ایک احتجاجی مکتوب لکھا تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’مجوزہ بل‘‘ مقدس قرآنی روح کے مغائر ہے اور اس ضمن میں قوم کو پیش آنے والے سنگین عواقب سے بھی خبردار کیا تھا‘‘۔ جسٹس ایّر نے مزید لکھا کہ اس بل کے ذریعہ کیا آپ ’’واٹر لو (Water Loo) کی صورتحال آنے والے انتخابات کو مدنظر رکھ کر تخلیق کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ہندو اور مسلم بنیاد پرستوں کو اس بل کے ذریعہ بھڑکانے کا ذریعہ بنے گا اور وہ اسے زبردست طریقہ سے استعمال کریں گے۔
ایّر نے واضح کیا کہ انتخابات میں سکیولر پرستوں کی تعداد نہایت کم ہوتی ہے اور ہندو جن جو ابھی سو رہا ہے، اسے جگانا نسلی منافرت کو بڑھاوا دینے کے مماثل ہے۔ ریاست کے استحکام پر بھی اس (بل) کا بُرا اثر پڑے گا، یہ بات تاریخ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر ہم جسٹس ایّر کے الفاظ کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستانی سیاست کا نہایت ہی صحیح تجزیہ کیا تھا جس کا حکومت نے سکیولرازم کے نقاب میں کیا تھا۔ جسٹس ایّر نے بجا طور پر اس بات پر زور دیتے ہوئے تاکید کی تھی، اس برانڈ، سکیولرازم کے نہایت ہی کم خریدار ہیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے دباؤ کے آگے وہ دَم توڑ دے گا، بعدازاں حکومت عوام میں نسلی معاملات کو فروغ دیتے ہوئے ملک کو اس دلدل میں ڈھکیل دے گی۔
درحقیقت اس بل کو لوک سبھا میں متعارف کروانے سے پہلے ہی خطرناک علامتیں ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ سال جنوری 1986ء کے دوسرے ہفتہ میں وزیراعظم راجیو گاندھی نے اعلان کیا کہ حکومت مسلم پرسنل لا بورڈ سے ایک مفاہمت کیلئے مشاورت کرچکی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم نامہ کو پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں پیش کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس سرمائی سیشن کا آغاز 5 فروری 1986ء سے ہونے والا تھا۔
اس اعلان کی ابھی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک بھیانک شور و غوغا بلند ہوا کہ جس کی وجہ سے حکومت شاہ بانو کیس میں عوام کو الجھانے کیلئے اس میں ’’بال و پَر‘‘ ڈھونڈنے لگی تاکہ عوام اصل بات کو بھول جائیں۔ اس موقع پر حکومت کی مدد کیلئے ایودھیا کیس ہاتھ لگا جس کا بھرپور شیطانی فائدہ مرکزی حکومت نے اٹھایا، مرکزی حکومت نے اترپردیش حکومت کو فوری احکام دیئے کہ بابری مسجد کا تالا کھول دیا جائے تاکہ متنازعہ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی میں عوام الجھ کر رہ جائیں۔ کے آر ملکانی، سابق ایڈیٹر آر ایس ایس کا موید جرنل، آرگنائزر، کتاب میں بدنام ’’دی پالٹکس آف ایودھیا اینڈ ہندو۔ مسلم ریلیشنس‘‘ میں انہوں نے لکھا کہ ’’سرکاری حکام نے غیررسمی طور پر وی ایچ پی (وشوا ہندو پریشد) سے ایک درخواست برائے کشادگی داخل کرنے کو کہا اور انہیں یہ بھی تیقن دیا کہ انہیں (وی ایچ پی) کو مثبت جواب دیا جائے گا‘‘، لیکن وی ایچ پی نے کہا کہ وہ تالہ کھلوانے میں دلچسپی رکھتی اور عدالت میں وہ جانا نہیں چاہتی۔ اس لئے کانگریس نے ایک مقامی جونیر ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کیں جس کی شناخت اُمیش چند پانڈے کی حیثیت سے کی گئی کہ وہ منصف کی عدالت میں 21 جنوری 1986ء کو ایک درخواست داخل کرے تاہم امید کے برخلاف منصف نے 28 جنوری 1986ء کو درخواست خارج کردی اور احکامات جاری کرنے سے یکسر انکار کردیا۔
یہاں سے مسترد ہونے پر انہوں نے فوری اثر کے ساتھ ’’کورٹ آف ڈسٹرکٹ جج‘‘ میں عرضی داخل کی۔ واضح رہے کہ سرکاری حکام نے عدالت کو اس بات کا تیقن دیا کہ ’’نقض امن‘‘ کا کوئی خطرہ اس حکم سے نہیں ہوگا۔ اس تیقن پر کورٹ نے یکم فروری 1986ء کو احکام جاری کئے کہ تالا کھول دیا جائے۔ جیسے ہی تالا کھولا گیا، چند گھنٹوں کے دوران وہاں پر کارسیوک جمع ہوگئے اور خوشی منائی جس کا راست نشریہ ریکارڈ کرتے ہوئے دوردرشن ٹی وی پر جاری کیا گیا۔
6 فروری 1986ء کو میں (مصنف) وزیراعظم راجیو گاندھی سے پارلیمنٹ میں ملاقات کی، اور جب میں (مصنف) نے ان سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو انہوں (راجیو گاندھی) نے کہا کہ کوئی بھی بورڈ کے قائدین وہاں پر احتجاج نہ کریں کہ اس تالا کشادگی کے بارے میں انہیں پہلے ہی سے اطلاع دے دی گئی تھی۔
وزیراعظم راجیوگاندھی کی ان وضاحتوں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ’’شاہ بانو فیصلہ اور ایودھیا‘‘ دراصل ایک ڈیل (معاملت) تھی جو راجیو گاندھی اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے درمیان طئے پا گئی تھی۔ بابری مسجد تحریک کے قائدین پر سخت تنقید، علی میاںؒ نے اپنی آپ بیتی ’’کاروانِ زندگی‘‘ میں کی جس میں انہوں (مولانا علی میاںؒ) نے قائدین تحریک بابری مسجد پر الزام لگایا کہ وہی (قائدین) دراصل اس تالا کشادگی کے لئے ذمہ دار ہیں کہ جس کی وجہ سے ہندوؤں میں ان کے مذہب کو احیاء کرنے میں مدد ملی۔ ان تمام چیزوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت کی حکومت اور مسلم پرسنل لا بورڈ میں خفیہ مفاہمت تھی، تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں میں بمشکل ہی خاموش رہیں اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کے خلاف لکھنے میں بھی کوئی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔
نتیجہ بالکل واضح اور صاف ہے اور سبھی پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ملک ابھی تک نسلی منافرت، طبقاتی کشمکش اور بے چینی کو جو 1986ء میں تھی، ابھی تک اس سے نبرد آزما ہے۔
اس پس منظر کو ایک شاعر نے نہایت ہی بہترین پیرایہ اور الفاظ میں کہا کہ
تاریخ امم میں کی گئی لمحاتی غلطیوں کا اثر صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔
لمحوں نے خطا کی تھی ، صدیوں نے سزا پائی!
(مصنف عارف محمد خان سابق میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں)