جنریشن گیاپ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
نئی اور پرانی نسل کے درمیان فاصلہ کوئی نئی بات نہیں ۔ دورِ حاضر کا یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے طفیل ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے ۔ گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان ، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طُلباء کے درمیان ، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان یہ فاصلے دن بہ دن بڑھتے ہی جارہے ہیں جن کو روکنا وقت کا تقاضہ ہے ۔ ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں نسلوں کے درمیان بڑھتے فاصلوں کو روکنے کی ہدایات موجود ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب بچے اپنے بڑوں کا احترام کرتے تھے اور بڑے اپنے چھوٹوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے ۔ ہائے افسوس ! جیسے جیسے معاشرہ تنزلی کا شکار ہوتا گیا یہ صفات ختم ہوتے گئے اب نہ وہ بزرگوں کا احترام باقی ہے اور نہ صبر و برداشت ۔ چھوٹوں کو بڑوں کی روک ٹوک ذری نہیں بھاتی ۔ تو بڑوں نے بھی اس میں عافیت جانی کہ اپنے چھوٹوں کے منہ نہ لگیں کہ رہی سہی عزت بھی جاتی رہے نتیجہ یہ نکلا کہ یہ نسلی فاصلہ بڑھتا ہی چلا ۔ آج کا نوجوان اپنے معاملات میں بزرگوں کی مداخلت بالکل برداشت نہیں کرتا ۔ الیکٹرانک میڈیا نے نوجوانوں کے ذہن کو ہی بدل ڈالا جو اپنے ہرمسئلہ کا حل اس میں ڈھونڈھتے ہیں ۔ یہ دورِ حاضر کا کڑوا سچ ہے ۔
ایک مشہور عربی محاورہ ہے ’’تھذیب الاطفال خیرالاشغال‘‘ یعنی تربیت اور تہذیب بچوں کی سب کاموں سے اہم اور مقدم فریضہ ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے : بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں ۔ (مسلم ) معلوم ہوا کہ مسلم نسل میں پیدا ہوئے بچہ کے والدین پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی تربیت اور تہذیب دے تاکہ وہ آئندہ خدانخواستہ مرتد اسلام نہ ہوجائے جس کا چلن آج کل عام ہوتا جارہا ہے ۔ ماں باپ کا اپنا نمونہ بچوں کی تربیت میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔ بچہ اپنے والدین کا نقال ہوتا ہے وہ جو کچھ اپنے والدین کو کرتے دیکھے گا ۔ اُسی کی نقل کریگا اُسی کا نام ’’خاموش تربیت بالعمل ‘‘ ہے ۔
ہمارے معاشرہ میں بے چینی ، انسانی رشتوں کی پامالی ، دین سے دوری کے ماحول میں اولاد کی نیک تربیت کرنا ایک غیرمعمولی چیلنج ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو یہ دُعا سکھائی : ’’اور وہ جو (خدا سے ) دُعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے ( دل کا چین ) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا ‘‘ ۔ (الفرقان: ۷۴)
نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا ’’یارسول اﷲ ﷺ مجھے کوئی وصیت کیجئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہی بنیاد ہے ‘‘ ۔
(ھدیقۃ الصالحین)
والدین کو چاہئے کہ نیک اولاد کے حصول کے لئے خود نیک اور صالح بن جائیں کیونکہ اسی میں خدا کی رضاء ہے ۔ اﷲ کے نیک بندے ہمیشہ اپنی آئندہ نسلوں کی دینی و دُنیاوی ترقیات کے لئے دُعائیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ بچوں کی نیک تربیت کرنا والدین کا فرض ہے اور اُن کو ہدایت دینا اﷲ کا اختیار ، یقینا جس قدر انسان ذاتی طورپر اصلاح یافتہ ، نیک فطرت ، متقی اور دُعاگو ہوگا اُسی قدر اﷲ تعالیٰ اُس کی اولاد اور نسل میں نیکی اور تقویٰ کو جاری رکھے گا ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بنو اُمیہ کے آٹھویں حکمران تھے اورحضرت عمرؓ کے سلسلۂ نسب سے تھے ۔ اپنی پاکیزہ سیرت ، راست روی اور پاک دامنی کے باعث اسلامی مورخین کے ہاں خلفائے راشدین میں شمار کئے جاتے تھے ۔
( سیرۃ عمر بن عبدالعزیز از عبدالسلام ندوی)
یہ عام مشاہدہ ہوتا جارہا ہے کہ کتنے ہی کروڑ پتی لوگوں کے بگڑے ہوئے بچے دین سے دور رہکر اُن کی زندگی کو اجیرن بنا رکھی ہے ، مجھے اس زندگی پر رونا آتا ہے جو اُنھوں نے اپنے بچوں سے غافل اور دور رہکر دولت کمانے کی دُھن میں گذار دی ۔ وہ بچوں کے لئے دولت کماتے رہے مگر خود بچوں کو کھوتے رہے ، دولت بچوں کے ہاتھ لگی اور بچے شیطان کے ہاتھ لگے ۔ اُن بیچاروں کے ہاتھ صرف لرزتے ہوئے ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے ہوئے دل کے سواء کچھ نہ آیا۔ اس لئے لوگو یاد رکھو :
’’نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست
ہاتھوں کے جن سے دین کو نصرت نصیب ہو ‘‘