جھارکھنڈ میں عددی طاقت کا امتحان

   

دوست کیسا کوئی صورت آشنا ملتا نہیں
ہے وطن ہی میں مرے ہر سمت بیگانوں کی بھیڑ
جھارکھنڈ میںآج چمپائی سورین کی حکومت کو ایوان اسمبلی میںاپنی عددی طاقت ثابت کرنی ہے ۔ چمپائی سورین نے 47ارکان اسمبلی کی تائید حاصل رہنے کا دعوی کیا ہے جبکہ ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کیلئے 41 ارکان کی تائید درکار ہے ۔ جس طرح سے اتحادی جماعتوں کی اسمبلی میں عددی طاقت ہے اس اعتبار سے تو چمپائی سورین کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے ۔ تاہم ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی جو روایت اور رجحان ہندوستان میں عام ہوگیا ہے اس سے کچھ گوشے اندیشوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ بی جے پی یا کسی اور مخالف جماعت نے ابھی تک حکومت کے تائیدی کسی رکن اسمبلی کے انحراف کا دعوی نہیںکیا ہے لیکن جو صورتحال ملک میں پائی جاتی ہے وہ جمہوری عمل کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے ۔ جس طرح سے ارکان اسمبلی کی خرید وفروخت کرتے ہوئے ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جا رہا ہے اور اسے ایک عام روایت بنادیا گیا ہے ایسے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ جمہوری عمل کا مذاق اڑانے اور اسے کھوکھلا کردینے کے مترادف ہے ۔ ارکان اسمبلی ذاتی شناخت کی بجائے کسی بھی پارٹی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور جاری کرتی ہیں۔ عوام سے مختلف وعدے کئے جاتے ہیں۔ مخالف جماعتوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔ ان کی خامیوں اور ناکامیوں کو عوام میں پیش کرتے ہوئے اپنے حق میں ووٹ کی اپیل کی جاتی ہے ۔ اسی منشور اور ان ہی وعدوںکی بنیاد پر عوام کسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب بناتے ہیں پھر ارکان اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر حکومت تشکیل پاتی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود سیاسی جماعتیں خاص طور پرمرکز میں اقتدار رکھنے اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر کنٹرول رکھنے والی جماعتیں مخالف جماعتوں کے قائدین کو دھمکاتے ہوئے انہیںانحراف کیلئے مجبور کرتی ہیں۔ انہیںلالچ دئے جاتے ہیں اور پھر ان کی تائید حاصل کرتے ہوئے ریاستوں میں بھی اپنے اقتدار اور حکمرانی کو یقینی بنایا جا رہا ہے ۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔
جس طرح سے جھارکھنڈ میں چیف منسٹر کے خلاف تحقیقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے وہ خود ایک مشکوک عمل کہا جاسکتا ہے ۔ ہیمنت سورین کو چیف منسٹر کے عہدہ سے مستعفی ہونے کیلئے مجبور کیا گیا ۔ انہیں گرفتار کیا گیا ۔ جب جے ایم ایم کی جانب سے چمپائی سورین کو مقننہ پارٹی لیڈر منتخب کرلیا گیا تو انہیں چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف دلانے کے معاملے میں دو دن تک ٹال مٹول کیا گیا ۔ بحالت مجبوری انہیں حلف دلا بھی دیا گیا ۔ انہیں5 فبروری کو ایوان اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنی ہے ۔ ارکان کی خرید و فروخت کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے انہیں دوسری ریاست کو منتقل کیا گیا ۔ یہ منتقلی اور اسمبلی اجلاس سے عین قبل ان کی واپسی کو دیکھتے ہوئے یہ شبہات یقینی طور پر تقویت پا رہے ہیں کہ انہیں خریدنے اور جے ایم ایم کو اقتدار سے محروم کردینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہی عمل دوسری ریاستوں میں بھی دہرایا گیا ہے ۔ کرناٹک میں ایسا کیا گیا تھا ‘ مدھیہ پردیش میں کیا گیا تھا ‘ مہاراشٹرا میں کیا گیا ہے ۔ بہار میں بھی اسی طرح کی صورتحال کا الزام عائد کرتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرکے آر جے ڈی و کانگریس کا دامن تھام لیا تھا تاہم اب وہ دوبارہ مودی کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ ‘ آر جے ڈی اور کانگریس کے جو ارکان جھارکھنڈ میں موجود ہیں ان کی عددی طاقت سے حکومت کو کسی طرح کا مسئلہ درپیش نہیں ہوسکتا ۔ تاہم انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حالات کو بدلنے کی کوششوں کے شبہات بھی ہیں۔
بی جے پی ہو یا دوسری جماعتیں ہوں انہیں عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر جماعت کو عوام کسی نہ کسی موقع اقتدار دیتے ہیں اور کبھی انہیں اقتدار سے بیدخل بھی کردیتے ہیں۔ اس صورتحال میں اپنی کارکردگی اور اپنے اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انحراف کی حوصلہ افزائی کرکے اقتدار پر قبضہ جمانا غیر جمہوری عمل ہے ۔ جھارکھنڈ میں ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا جانا چاہئے ۔ اپوزیشن کو بھی ایسی کسی حرکت سے گریز کرنا چاہئے تاکہ جمہوریت اور جمہوری عمل کا مذاق نہ بن جائے اور عوامی رائے کو یرغمال نہ بنایا جاسکے ۔