جے ڈی ایس بھی بے نقاب

   

کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بری طرح سے شکست کھانے اور ایک طرح سے اپنے وجود کا احساس دلانے میں ناکام ہوجانے کے بعد جنتادل سکیولر نے بھی اپنا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے ۔ بی جے پی کی مخالفت میں انتخابات لڑنے اور سکیولر ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود اپنے سیاسی وجود کو بچانے کیلئے جنتادل سکیولر نے اب بی جے پی سے اتحاد کا اعلان کردیا ہے ۔ سا بق چیف منسٹر و جنتادل سکیولر کے لیڈر ایچ ڈی کمارا سوامی نے کہا کہ ان کی پارٹی اب کانگریس کے خلاف بی جے پی کے ساتھ مل کر کام کرے گی ۔ کمارا سوامی کا دعوی تھا کہ پارٹی سربراہ ایچ ڈی دیوے گوڑا نے انہیں ( کمارا سوامی کو ) یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مسئلہ پر کوئی فیصلہ کریں۔ کمارا سوامی نے اپنے فیصلے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کا جے ڈی ایس کا یہ پہلا موقع نہیں ہے ۔ اس سے قبل بھی بی جے پی کے ساتھ کمارا سوامی نے مل کر کام کیا تھا ۔ تاہم گذشتہ چند برسوں میں وہ بی جے پی سے برابر دوری بنائے ہوئے تھے اور انہوں نے کرناٹک کی بومائی حکومت اور مرکز کی نریندر مودی حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا تھا تاہم اب اچانک ہی انہوں نے ایک بار پھر بی جے پی کا ساتھ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کرناٹک کے مسلم رائے دہندوں نے ایک جٹ ہو کر کانگریس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ یہی وجہ رہی کہ ریاست میں بی جے پی حکومت کو شکست دی جاسکی اور کانگریس نے شاندار طریقہ سے اقتدار پر واپسی کی ہے ۔ مسلمانوں کی دوری کو محسوس کرتے ہوئے ہی کمارا سوامی نے اپنے طور پر بی جے پی سے دوستی کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ انہیں یہ احساس ہوگیا ہے کہ اب مسلمان ایک بار پھر کانگریس کے ساتھ ہونے لگے ہیں اور وہ ایک جٹ ہو کر کانگریس کو ووٹ دینے لگے ہیں تاکہ بی جے پی کو شکست دی جاسکے ۔ کرناٹک کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعہ دوسری ریاستوںا ور ملک بھر کے مسلمانوں کیلئے ایک پیام دیا ہے اور جے ڈی اے جیسی جماعتوں کے حواس اس حقیقت کی وجہ سے باختہ ہونے لگے ہیں۔
جو علاقائی جماعتیں رہی ہیں انہوں نے کانگریس اور بی جے پی کی مخالفت کا نعرہ دیتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کی تھی ۔ عوام میں اپنا ایک ووٹ بینک بنایا تھا ۔ بیشتر مواقع پر جب انہیں اقتدار حاصل رہا تو بی جے پی سے در پردہ تعلقات نبھائے گئے یا پھر کبھی کھلے عام مخالفت بھی کی گئی ۔ تاہم انہوں نے موقع پرستی کا اکثر و بیشتر مظاہرہ کیا ہے ۔ بی جے پی نے بھی علاقائی جماعتوں کو اسی وجہ سے موقع فراہم کیا تاکہ کانگریس کے ووٹ بینک کو ختم کیا جاسکے ۔ ملک سے اگر کانگریس کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر علاقائی اور ریاستی جماعتوں کا صفایہ کرنا بی جے پی کیلئے زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ اس حقیقت کو ملک کے مسلمان بتدریج محسوس کرنے لگے ہیں۔ انہیں اندازہ ہونے لگا ہے کہ علاقائی اور مقامی جماعتیں ٹھوک کے بھاو میں ان کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے بی جے پی سے موقع کی مناسبت سے سودے بازیاں کر رہی ہیں اور اہم ترین امور پر بھی راست یا بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کی جا رہی ہے ۔ کرناٹک کے مسلمانوں نے اسمبلی انتخابات میں اپنے ووٹ سے یہ پیام دیدیا تھا کہ اب وہ کسی کے بہکاوے یا جذباتی نعروں اور تقاریر کا شکار نہیں ہونگے اور نہ وہ مزید دھوکے کھانے کے متقاضی ہوسکتے ہیں۔ شائد یہی وجہ رہی کہ انہوں نے کرناٹک میں کھل کر اور ایک جٹ ہو کر کانگریس کا ساتھ دیا اور بی جے پی کو وہاں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اس حقیقت کو جنتادل سکیولر نے بہت جلد تسلیم بھی کرلیا ہے ۔
ویسے بھی ملک کی ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے سیاسی مستقبل کے تعلق سے کوئی بھی فیصلہ کرنے اور کسی بھی جماعت یا اتحاد کا حصہ بننے کیلئے آزاد ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنے لگی ہیں۔ ملک کے تمام ووٹرس اور عوام کو اور خاص طور پر ملک کے مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جن علاقائی جماعتوں کا ووٹ بینک بن رہے ہیں وہ انہیں موقع آنے پر دھوکہ دینے سے گریز نہیں کریں گی ۔ جنتادل سکیولر کے فیصلے سے یہ بات مزید تقویت پا گئی ہے کہ علاقائی جماعتیں بھی مسلمانوں کا استحصال کرکے بی جے پی کو فائدہ پہونچا رہی ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے ر کھ کر مسلمانوں کو اپنے موقف کا تعین کرنا چاہئے ۔