حسن اخلاق، اسلام کی عظیم روح

   

مولانا محمد نعیم نگوروی
حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صحبت کاملہ سے بدخلق لوگوں کو جس انداز سے اخلاقِ حسنہ کا پیکر بنادیا، اس کی مثال نہیں ملتی اور جس انداز سے جمالِ مصطفویﷺ کا دیدار کرنے والوں نے محبوبﷺ کی پسندیدہ اداؤں کو قلب و ذہن کی تختیوں پر رقم کیا، یہ بھی ان ہی کا حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بندۂ مکرمﷺ کے طفیل ان کے اصحاب پر بھی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں۔ رسالت مآب ﷺکے غلاموں میں سے ہر کسی کی خواہش ہے کہ مجھے پیارے آقا ﷺکی رحمت کا سایہ نصیب ہوجائے، لیکن آقاﷺ نے اپنے امتیوں سے یہ فرمایا کہ ’’اے میرا قرب تلاش کرنے والو! اے میری رحمت کے متلاشیو! تم میں سب سے زیادہ مجھے عزیز و محبوب اور آخرت میں میرے قریب وہ خوش نصیب ہے، جو اچھے اخلاق کا پیکر ہے اور مجھے سب سے ناپسندیدہ اور مجھ سے دُور وہ انسان ہے، جس کا اخلاق بُرا ہے‘‘۔
نماز روزہ کا مقصد یہ نہیں کہ کثرتِ عبادت پر نازاں ہو اور کثرت عبادت پر نازاں ہوکر فخر و غرور کا پُتلا بن جائے، بلکہ عبادات انسان کو عجز و انکسار کا درس دیتی ہیں۔ صاحبِ خلق عظیم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے اللہ نے مجھے نو (۹) باتوں کی وصیت کی ہے، میں بھی تمھیں نو باتوں کی وصیت کرتا ہوں: (۱) میں خلوت و جلوت میں خلوص کا مظاہرہ کروں (۲) میں غصہ اور خوشنودی دونوں حالتوں میں عدل کروں (۳) میں فقر و غنا کے وقت میانہ روی سے کام لوں (۴) جو مجھ پر ظلم کرے میں اُسے معاف کروں (۵) جو مجھے محروم رکھے میں اُسے عطا کروں (۶) جو میرے ساتھ تعلق توڑے میں اس کے ساتھ جوڑوں (۷) میری خاموشی غور و فکر ہو (۸) میری گفتگو ذکر الٰہی ہو (۹) میری نگاہ عبرت آموز ہو‘‘۔ (بحوالہ مقالہ پیر کرم شاہ ازہری)
محبوب حقیقی ﷺکے عطا کردہ نظامِ اخلاق کا مطالعہ کریں تو عقل و شعور کی راہیں معطر ہو جاتی ہیں کہ ایک انسان کتنی خوبیوں اور کمالات کا مرقع ہے، جس نے اپنی حکمت بھری گفتگو، نرم لہجے اور چہرۂ اقدس کے جلال و جمال سے خود فراموش انسانوں کو خود شناس اور خدا شناس بنادیا۔ جس کی صحبتِ کاملہ کے فیض نے عرب کے اُجڈ لوگوں کو انسانیت کا تاجدار بنادیا۔
قرآن مجید صحیفۂ ہدایت اور نسل انسانی کے لئے عالمگیر ضابطۂ حیات ہے۔ اس نے زمین پر بسنے والے انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق کی صرف فہرست نہیں دی، بلکہ ان کی پہچان بھی کرائی ہے۔ رسول اکرم ﷺنے ان حقوق کی تفصیل اپنے اعمال و افعال سے یوں واضح کی کہ کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ ﷺکے اعمالِ حسنہ میں کوئی نقص واقع ہوا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول ہی ایسا مبعوث فرمایا، جن کی زندگی کے شب و روز، کردار و گفتار، جلوت و خلوت، ظاہر و باطن، ہر قسم کے تضاد و تفاوت سے پاک اور مبرا تھے۔
قرآن حکیم نے حقوق انسانی کو جس طریقے سے پیش کیا، ذاتِ مصطفیٰ ﷺ نے ایک ایک عمل خیر پر اس انداز سے عمل کرکے دکھایا کہ نزولِ قرآن کا مقصد پورا ہو گیا۔ قرآن حکیم نے اخلاقیات کے جس جس شعبے کی نشاندہی کی، رسولِ پاک ﷺنے منشائے الٰہی کے مطابق اخلاقیات کی تفسیر کے طورپر اپنے آپ کو پیش کیا۔آج ہمارا معاشرہ عجیب طرز کے تضاد کا شکار ہے، جس طرف نظر دوڑائیں، ہر جگہ کردار و عمل کا واضح تضاد و تصادم نظر آتا ہے۔ افسر ہے تو ملازم کو ذاتی غلام اور نوکر سمجھتا ہے۔ دنیوی مال کے ڈھیر تو لگے ہیں، مگر یہ خبر نہیں کمائی حلال ہے یا حرام، حتیٰ کہ سود خوری کو منافع کا نام دیا جاتا ہے۔ رشوت اور سفارش ہمارے معاشرہ کا کلچر بن چکی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔ قانون غریب کو اور امیر قانون کو کھائے جا رہے ہیں۔ الغرض فرائض کی ادائیگی کی بجائے صرف ان کے حصول کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔
اب ذرا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر دیکھیں اور اللہ کے محبوب ﷺ سے پوچھیں کہ ’’آقا! اللہ تعالیٰ نے آپ کو لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْـرًا کے لقب سے نوازا ہے، تو آپؐ نے اپنے آپؐ کو قوانینِ الٰہی کے محافظ کے طورپر کس طرح پیش کیا؟‘‘۔ آواز آئے گی: ’’اے میرے امتی! میں نے احکامات اور قوانینِ الٰہیہ کو صرف پڑھ کر سنایا ہی نہیں، بلکہ سب سے پہلے قوانین اور احکامات کو اپنی ذات پر نافذ کیا اور پھر دوسروں کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا‘‘۔
یہ ہماری کم نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج کے دَور میں ہم نے دین کو صرف پڑھنے کا نام دیا ہے، ہم نے اسے اپنے اوپر نافذ نہیں کیا، جب کہ رسول پاک ﷺ جو پیغمبر انقلاب اور منبع خیرات و برکات ہیں، نے اخلاقِ قرآنیہ کی ایک ایک آیت کو اپنے اوپر نافذ کیا، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فلاں نیکی کا حکم تو دیا، مگر خود اس پر عمل پیرا نہیں رہے‘‘۔ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرم ﷺکے کردار کو اس طرح بیان فرماتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ صفاتِ عالیہ آپﷺ کے اعلانِ نبوت سے قبل ہی عوام و خواص میں مشہور تھیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ پر جب پہلی وحی اُتری اور جب آپﷺ اپنے گھر واپس ہوئے تو بتقضائے بشری جسدِ اطہر میں بوجھ محسوس ہوا اور چہرۂ اقدس پر پسینہ آگیا۔ آپﷺ نے حضرت ام المؤمنین سے فرمایا کہ ’’مجھے چادر اُڑھادو‘‘۔ اس موقع پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اکرم ﷺسے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، (کمزوروں کا) بوجھ اُٹھاتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی عزت کرتے ہیں اور حق کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ اُم المؤمنین نے آنحضورﷺ کے ان اخلاقِ کریمانہ کا تذکرہ کیا، جن سے آپﷺ کے حسنِ اخلاق کا پتہ چلتا ہے۔ ام المؤمنین نے آپﷺ کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہی آپ کے اوصاف کا ذکر کیا، جن کی تکمیل کے لئے آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ یعنی ’’مجھے اخلاقِ عالیہ کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت وہی مکمل اور قابل قبول ہوگی، جس میں حسنِ اخلاق کی خوشبو ہوگی۔ ایک انسان پنجوقتہ نمازی، پرہیزگار اور عابد شب زندہ دار ہو اور اخلاقی لحاظ سے قطع رحمی کرنے والا ہو تو وہ نماز کی حقیقی روح کو نہیں سمجھا کہ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ کا حقیقی فلسفہ کیا ہے۔ قرآن حکیم نے جا بجا قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ یہی قباحت ہے، جو آج ہمارے معاشرے میں بڑے عروج پر پہنچ چکی ہے اور دین اسلام کو صرف چند عبادات میں منجمد کردیا گیا ہے اور جو اعمال ان عبادات کو بارگاہِ رب العزت میں قبولیت دِلانے والے ہیں، اُن سے فروتنی کی جاتی ہے۔ (اقتباس)