حسن الدین احمدنابغہ روزگار شخصیت بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

   

ناظم علی
حسن الدین احمد صاحب IAS جولائی 1923ء کو نوابی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے و الدین یار جنگ حیدرآباد کے پہلے کوتوال تھے۔ آپ نے بحیثیت سیول سرونٹس ملک و قوم کی بے پایاں خدمات انجام دی ہیں۔ مسلم معاشرہ و ملت کی خدمات میں منہمک رہے۔ آپ قوم و ملک کے دانشور کہلاتے ہیں۔ ملک کی پالیسی ساز اداروں میں رہ کر دانشمندانہ مشورے دیا کرتے تھے اور جہاں بھی رہے، اپنے اختراعی ذہن سے نئی اسکیم پالیسی مدون و مرتبت کی ہے۔ ملک و قوم پر آپ کا بڑا احسان ہے۔ انسان خدمات اور کام سے پہنچانا جاتا ہے۔ حسن الدین احمد جس شعبہ و محکمہ سے وابستہ رہے، وہاں اصلاحات کے ذریعہ ترقی کی راہیں قائم کی ہیں۔ بحیثیت سیول سرونٹس انہوں نے بے لوث خدمات انجام دی ہیں۔ اجین کے آچاریہ کی کتاب جس میں قرآنی آیات سے متعلق غیرمسلم برادران وطن کی غلط فہمیوں کو دور کیا۔ مختلف زبانوں میں مقالہ شائع کروایا ولا اکیڈیمی کے زیراہتمام آپ نے 25 کتابیں مرتب کرکے شائع کیں۔ آپ نے اپنے دادا عزیز جنگ ولا کی خدمات اور کام کی یاد میں ولا اکیڈیمی قائم کی۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اکنامکس اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور IAS سرویس سے بھی وابستہ رہے۔ مرکزی وقف کونسل کے رکن کی حیثیت سے وقف اصلاحات کیلئے آپ نے اہم رول ادا کیا اور نظام حیدرآباد کی خواہش پر بھگوت گیتا کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ قرآن فہمی پر انگریزی میں چار کتابیں مکمل کی ہیں۔ علاوہ ازیں محبوب نگر میں غالب ہال، نور خاں بازار میں وقف کامپلیکس تعمیر کروایا اور دینی تعلیم کے فروغ میں مدرسہ قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ادیب و شاعر تھے۔ اسلوب سادہ ، پراثر اور متاثرکن تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی خدمات کا دائرہ کار بہت وسیع تھا۔ آپ ملت و قوم کی فکر کرتے تھے اور اصلاحات پیدا کرنے کی کاوش کرتے رہے۔ قومی سطح اور ریاستی سطح پر ان کی خدمات بیش بہا اور وقعت کی حامل ہیں۔

آپ کی شخصیت میں ہمدردی، مروّت، انکساری، خاکساری، شرافت، سادگی، ملنساری، بدرجہ اَتم موجود تھی۔ بات دوستانہ ماحول میں کرتے تھے۔ کسی پر رعب نہیں ڈالا اور نہ بڑے افسر ہونے کا احساس دلایا بلکہ عام آدمی کی طرح پیش آئے تھے۔ سماج، ملت، قوم و ملک یا دیگر مسائل پر ان کی سوچ و فکر دانش مندانہ ہوتی تھی۔ ملک و قوم کے دانشور و مفکر تب ہی بنتے ہیں، جب ہم محنت و مشقت سے تعلیم حاصل کریں۔ نوابی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود سادگی کا پیکر تھے۔ حسن الدین احمد کے کارنامے کی تفصیل دیکھیں تو ایک دفتر ہوجائے۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود علمی و ادبی کام بڑی خوبی سے انجام دیا کرتے تھے۔ایک IAS آفیسر 25 کتابیں لکھنا بہت بڑی بات ہے۔ آپ نے کس طرح سے وقت کا ساتھ دیا اور سرکاری مصروفیات کے باوجود علم و ادب کی خدمات انجام دی ہیں۔ اُردو کے فروغ و ترقی کیلئے دانشورانہ مشورے دیا کرتے تھے۔ اُردو کے بہی خواہ تھے۔ الغرض قوم کو آپ کے علمی و فکری ورثہ سے خوب استفادہ کرنے اور بنام ’’حسن الدین احمد اکیڈیمی‘‘ کا قیام عمل میں لائے اور آپ کی یاد اور انہیں زندہ رکھنے کیلئے حیدرآباد کی کسی سڑک کا نام ’’حسن الدین احمد‘‘ رکھیں، ویسے امریکہ میں آپ کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ ان کو صحیح خراب عقیدت پیش کرنا ہو تو نئی نسل انڈین سیول سرویس میں شریک ہوکر IAS، IPS بن کر قوم کی بے لوث خدمات انجام دیں۔ جس طرح ہمارے اسلاف نے IAS آفیسر بن کر خدمات انجام دی ہیں، اسی طرح سے نئی نسل ان کی طرز زندگی اور مشن کو اپنا لیں۔ نسل نو IAS، IPS بن کر ہی حقیقی خراج عقیدت ادا کرسکتی ہے اور آپ کے خوابوں کی تعبیر بھی ہوسکتی ہے۔ ہر ماہ حسن الدین احمد میموریل لیکچر کا اہتمام کریں۔ اُردو اکیڈیمی ریاست تلنگانہ ان کے نام سے ایوارڈ قائم کرے کیونکہ آپ نے ریاست، ملک و قوم کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہے، ایسے دانشور برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی اوصاف حمیدہ اور ہمہ جہت شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔ اللہ مغفرت فرمائے۔(آمین)٭