حضرت امام حسینؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ

   

محمد خورشید اختر صدیقی ، بیدر
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے جو ۱۰ محرم الحرام ۶۱؁ ہجری کو واقع ہوا ۔ حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد اہل کوفہ (عراق) والے دِل سے یزید (امیرمعاویہؓ کابیٹا) کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تھے اور حضرت حسینؓ کو خط و کتابت کے ذریعہ یہ پیعام دیئے تھے کہ وہ کوفہ آئیں اور کوفہ والے حضرت حسینؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ۔ اس پیغام کے ملنے کے بعد ۳؍ ذوالحجہ ۶۰؁ ہجری حضرت امام حُسین مکہ سے معہ اہل و خاندان روانہ ہوئے اور ادھر عبداﷲ بن زیاد (جو یزید کی فوج کا سپہ سالار تھا) نے بہت ساری فوج کو مامور کیا کہ وہ حضرت امام حسینؓ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہے اس بات کی کھوج لگائیں اور عبداﷲ بن زیادہ کی فوج نے حضرت حسینؓ کو ہرطرف سے گھیرلیا تو وہ چل کر مقام کربلا میں آکر مقیم ہوئے۔ وہاں پر یزیدی فوج کا ایک سپاہی عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کو عبداﷲ بن زیاد کا پیغام دیا کہ حضرت امام حسینؓ اپنے آپ کو ان لوگوں کے حوالے کردیں لیکن امام حسینؓ نے کہاکہ اس سے تو مرنا بہتر ہے۔ ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ اس سے پہلے عبداﷲ بن زیادہ نے حکم دیاکہ پانی پر قبضہ کرلو اور حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے لئے پانی بند کردو ۔ عمرو بن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمرو بن الحجاج کو پانچسو سوار دے کر ساحلِ فرات پر متعین کردیا اور دوسرے دن یزید کی فوج نے حضرت امام حسینؓ پر حملہ کیا ۔ عمرو بن سعد نے فوراً ایک تیر کمان جوڑکر حسینؓ کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایاہے ۔ اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دو آدمی نکلے ۔ امام حسینؓ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ گاہ جاکر دونوں کو قتل کردیا ، پھر اسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا۔ دیر تک مبازرہ کی لڑائی ہوتی رہی اور اس میں کوفیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے ۔ پھر اس کے بعد امام حسین کی طرف سے ایک ایک آدمی نے کوفیوں کی صفوں پر حملہ کرنا شروع کیا ۔ اس طرح بہت سے کوفیوں کانقصان ہوا۔ حضرت امام حسینؓ کے ہمراہیوں نے آلِ ابی طالب کو اس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا جب تک کہ وہ ایک ایک کرکے سب کے سب نہ مارے گئے ۔ آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آلِ علی پر سبقت کی ان کے بعد حضرت امام حسینؓ کے علی اکبرؓ نے دشمنوں پر رستمانہ حملے کئے اور بہت سے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوگئے ۔ ان کے شہید ہونے کے بعد حضرت امام حسینؓ سے ضبط نہ ہوسکا اور آپ رونے لگے ۔ پھر آپ کے بھائی عبداﷲ و محمد و جعفر و عثمان نے دشمنوں پر حملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کو مارکر خود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہوگئے ۔ آخر میں حضرت امام حسینؓ کے ایک نوعمر بیٹے محمد قاسم بھی شہید ہوگئے ۔ غرض کہ امام حسینؓ کیلئے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کر مصیبت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے اور اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ان روح فرسا نظاروں کاتماشہ دیکھتے ہوئے دیکھا ۔
حضرت امام حسینؓ کے ہمراہیوں اور خاندانوں والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے تو دوسری طرف وفاداری و جاں نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کردیں۔ نہ کسی شخص نے کمزوری و بُزدلی دکھائی ، نہ بے وفائی و تن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا۔ حضرت امام حسینؓ سب سے آخر تنہا رہ گئے ۔ خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی اوسط المعروف بہ زین العابدین جو بیمار تھے باقی رہ گئے تھے ۔ عبداﷲ بن زیاد ظالم نے یہ حکم بھی بھیج دیاتھا کہ امام حسینؓ کا سرمبارک کاٹ کر ان کی لاش گھوڑوں سے پامال کرائی جائے ۔ (نعوذباللہ)
حضرت امام حسینؓ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری و جواں مردی کے ساتھ دشمنوں پر حملے کئے کہ عمرو بن سعد اور شمرذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر و جرات مند انسان نہیں دیکھا ۔ آپ کے جسم مبارک پر پینتالیس زخم تیر کے تھے مگر آپ برابر دشمنوں کا مقابلہ کئے جارہے تھے ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ۳۳ زخم نیزے کے اور ۴۳ زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے ۔ شروع میں آپ گھوڑے پر سوار ہوکر حملہ آور ہوتے رہتے تھے لیکن جب گھوڑا مارا گیا تو پھر پیدل لڑنے لگے ۔ دشمنوں میں کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھاکہ امام حسینؓ میرے ہاتھ سے شہید ہوں بلکہ ہر شخص آپ کے مقابلہ سے بچتا تھا ۔ آخر شمر ذی الجوشن اپنے آدمیوں کے ہمراہ لے کر آپ پر حملہ کیا ۔ اور بالآخر آپ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگئے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَo