حضرت حسن بصریؓعلومِ نبوت کے وارث و جانشین

   

دینِ اسلام حکمت اور پاکیزگی کا مذہب ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا اولین مقصد تعلیم کتاب و حکمت تزکیہ نفوس اور تہذیب اخلاق رہاہے ۔ اس اُمت میں ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے سینوں سے علوم و فنون ، اسرار اور حکمتوں کے چشمے پھوٹے ہیں اور وہ اخلاق و پاکیزگی میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وارث و جانشین رہے ہیں۔ انہی واراثانِ نبوت میں ایک اہم ذات گرامی سیدنا حسن بصریؓ کی ہے جن کے والد ماجد ’’یسار‘‘ ایک قول میں حضرت زید بن ثابت ؓکے آزاد کردہ غلام اور والدہ ماجدہ اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی کنیز تھیں ، آپ کی ولادت ، حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد خلافت میں وصال سے دو سال قبل ہوئی اور حضرت فاروق اعظم ؓنے آپ کے لئے برکت کی دعاء فرمائی۔ ارشاد فرمایا : ’’اے اﷲ اِن کو تفقہ فی الدین عطا فرما اور لوگوں میں محبوب بنادے‘‘۔
حضرت اُم سلمہ ؓآپ کی والدہ ماجدہ خیرہؓ کو کسی کام سے بھیجا کرتیں ۔ جب آپ رویا کرتے تو اُم المؤمنینؓ آپ کو سنبھالا کرتیں اور آپ کو اُم المؤمنین ؓ سے رضاعت کا شرف حاصل ہے ، آپ کے عہد میں معاشرہ میں یہ تاثر عام تھاکہ جو علوم و معارف کے دریا حضرت حسن بصری سے پھوٹے ہیں وہ درحقیقت اِسی رضاعت کا فیض تھا ۔
حضرت سیدنا حسن بصری ؓ ظاہر و باطنی جمال و خوبصورتی کے پیکر تھے ، بلند پایہ فقیہ ، فصیح و بلیغ واعظ و خطیب ، عابد و زاہد اور جامع کمالات تھے ۔ حضرت شعبی نے بصرہ جانے والے ایک شخص سے کہاکہ اہل بصرہ میں تم کسی شخص کو سب سے زیادہ خوبرو اور صاحب جلال پاؤ تو جان لو کہ وہی حضرت حسن بصری ؓہیں۔ ( سیراعلام النبلاء )
سیدنا حضرت بصری ؓرقت قلبی ، نرم مزاجی کے باوصف نہایت بہادر و دلیر اور مضبوط جوڑ تھے اور کثرت سے جہاد میں شرکت فرمایا کرتے تھے ۔ آپؓ کے وعظ نہایت متاثر کن ہوا کرتے ۔ آپؓ فرماتے ہیں : ’’ہائے افسوس اے انسان ! کیا تجھ میں اﷲ تعالیٰ سے جنگ کرنے کی طاقت ہے ؟ کیونکہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے حقیقت میں وہ اﷲ تعالیٰ سے جنگ کرتا ہے ۔ بخدا ! ستر اصحاب بدر سے میں نے ملاقات کی ہے ، اُن میں سے اکثر و بیشتر کا لباس اون کاہوا کرتا یعنی وہ دنیا سے بے رغبت تھے اور عیش و نعمت کے حریص نہ تھے۔ اگر تم ان کو دیکھتے ہوتے تو کہتے یہ لوگ مجنون ہیں اور اگر وہ تم میں بہترین افراد کو دیکھتے تو کہتے کہ تم میں اخلاق نہیں اور اگر تمہارے برے افراد کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ حساب کے دن پر ایمان نہیں رکھتے میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کے نزدیک دنیا قدموں کی نیچے کی مٹی سے زیادہ معمولی تھی ۔ بلاشبہ میں نے ایسے افراد کو دیکھاہے کہ جن کے پاس ایک وقت کی غذا ہوتی تو وہ کہتے کہ میں یہ پورا نہیں کھاسکتا ضرور اس کابعض حصہ اﷲ واسطے دیدونگا پھر وہ صدقہ کردیتا ہے درانحالیکہ وہ اس کا زیادہ محتاج ہوتا ہے‘‘۔
’’اے ابن آدم! عمل کر ، عمل کر کیونکہ عمل ہی تیرا گوشت اور خون ہے ، نیزغور کر کس عمل پر تو اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ بلاشبہ اہل تقویٰ کی چند علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں منجملہ ان کے سچی بات کرنا ، عہد و پیمان کو پورا کرنا ، صلہ رحمی کرنا ، کمزوروں پر رحم کرنا ، فخر و غرور نہ کرنا ، نیکی کو عام کرنا ، لوگوں پر مباہات کم کرنا ، حسن اخلاق سے پیش آنا اور کشادہ اخلاق اﷲ تعالیٰ سے قریب کرنے والے ہے ‘‘۔
جمال الدین ابوالفرج ابن الجوزیؒ نے حضرت حسن بصریؓ کے زہد و مواعظ پر ایک مختصر اور جامع کتاب بنام ’’آداب الحسن البصری و زھدہ و مواعظہ‘‘ مرتب کی ہے جس میں آپ کے حالات کے علاوہ آپؓ سے منقول مواعظ و حکم اور زہد و ورع کے احوال او آپؓ کے اقوال کو قلمبند کیا ہے جن میں سے چنددرج ذیل ہیں :
’’حضرت حسن بصریؓ سے روایت ہے آپؓ فرمایا کرتے کہ کسی مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرنا میرے نزدیک ایک مہینہ اعتکاف رکھنے سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ایک شخص نے آپؓ سے دریافت کیا کہ حسن اخلاق کیاہے؟
تو آپؓ نے فرمایا : سخاوت ، درگزر کرنا اور برداشت کرنا ۔
آپؓ فرمایا کرتے : آدمی کی مروء ت ، اس کے زبان کی سچائی، اپنے بھائیوں کے بوجھ کو اُٹھانا اور اپنے اہل زمانہ کے لئے بھلائی کو عام کرنا اور اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے رُکنا ہے۔
آپؓ کا ارشاد ہے : بندہ کو ہر ایک نفقہ کا حساب دینا ہوگا سوائے اس نفقہ کے جو اس نے اپنے والدین پرخرچ کیا ہے یا جو ان سے کم مرتبہ ہیں یا وہ نفقہ جو اس نے اپنے بھائی پر اﷲ کی راہ میں خرچ کیا ہے یا اپنے دوست پر اﷲ کی اطاعت میں خرچ کیا ہے کیونکہ مروی ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اس سے ان چیزوں سے متعلق محاسبہ کرنے سے حیا فرماتا ہے ۔ آپؓ فرماتے ہیں : اے انسان ! اﷲ کی حرام کردہ اشیاء سے رُک جا تو عابد ہوجائیگا ، اپنے مقسوم پر راضی ہوجا تو غنی ہوجائیگا ، اپنے قرب و جوار میں رہنے والوں سے حسن سلوک کر تو مومن ہوجائیگا، لوگوں کے لئے وہی پسند کر جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو عادل بن جائیگا ، کم ہنسا کر کیونکہ وہ دل کو مردہ کردیتی ہے ایسے ہی جس طرح بدن کو موت آتی ہے ۔ آپؓ فرماتے ہیں : اے لوگو ! تم اپنی مراد کو پا نہیں سکتے سوائے اس کے کہ تمہیں شہوات کو ترک کرنا ہوگا ۔ تم اپنی امیدوں کو نہیں پاسکتے ہیں سوائے اس کے کہ تم کو ان چیزوں پر صبر کرنا ہوگا جن کو تم نہ پسند کرتے ہو۔ صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ، انسان تمام بھلائی کو لمحہ بھر صبر کرکے حاصل کرسکتا ہے ۔
آپؓ فرمایا کرتے : چار چیزیں جن میں ہوتی ہیں اﷲ تعالیٰ اسکو جنت میں داخل فرماتا ہے اور اپنی رحمت اس پر عام کردیتا یہ جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتا ہے ، اپنے مملوک ( ملازم) کے ساتھ نرمی کرتا ہے ، یتیم کی کفالت کرتا ہے اور کمزور کی مدد کرتا ہے ۔
حضرت حسن بصریؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب ؓ فرمایا کرتے جو چیز تمہارے بھائی کی محبت کو جلا بخشتی ہے وہ بوقت ملاقات سلام میں پہل کرنا ، اس کے اچھے نام سے بلانا اور اس کے لئے اپنی مجلس میں جگہ وسیع کرنا پھر حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں تمہارے سلف صالح نے تم کو آداب اور مکارم اخلاق سکھائے ہیں تم ان کو سیکھو اﷲ تم پر رحم کریگا۔ آپؓ فرمایا کرتے کہ حضرت رسول اﷲ ﷺ سے مروی ہے کہ میری اُمت کے ابدال جنت میں صلوٰۃ و صیام کی کثرت کی وجہ سے داخل نہیں ہوں گے بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت قلب کی صفائی و سلامتی ، نفس کی سخاوت اور تمام مسلمانوں کیلئے رحمت کے سبب داخل ہوں گے ۔ حضرت محمد بن سیرین جو خواب کی تعبیر دینے میں شہرت رکھتے تھے کسی نے ان سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک پرندے نے مسجد سے سب سے بہترین کنکری کو لے لیا ہے تو حضرت ابن سیرین نے فرمایا اگر تمہارا خواب سچا ہے تو یہ حضرت حسن بصریؓ کی موت ہے کیونکہ وہی ہمارے درمیان مسجد میں سب سے بہتر ہیں۔ چند دن نہیں گزرے کہ حضرت حسن بصری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔