حضرت سیدنا امام زین العابدین ؓ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
نام : علی، کنیت ابوالحسن اور لقب زین العابدین ۔ آپ حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ کے چھوٹے فرزند تھے۔
اہل بیت اطہار رضی اﷲ عنہم اجمعین، جن کی عظمت و رفعت قرآن حکیم میں یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اہل بیت اطہار کو ہر طرح کی گندگی سے پاک و منزہ کیا جائے‘‘ {سورۃ الاحزاب، آیۃ ۳۳} ایسے باعظمت و بارفعت گھرانے کے چشم و چراغ حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے مجھے مغرور اور فخر کرنے والے پر بڑا تعجب ہوتا کہ وہ شخص ماضی کے کَل میں ایک نطفہ تھا، اور آنے والے کَل میں مردار ہوجائے گا، اور یہ بھی فرمائے ہیں کہ کچھ تو لوگ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے ڈر سے عبادت کرتے ہیں جو کہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ لوگ جنت میں داخل ہونے کی حرص و طمع میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں جو کہ تاجروں کی عبادت ہے اور تو کچھ لوگ صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر عبادت کرتے ہیں، حقیقت میں یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ کا دل اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خوف سے مامور تھا اور بے انتہاء خوف الٰہی سے اکثر مرتبہ بے ہوش ہوجایا کرتے تھے، ذہبی میں تحریر موجود ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ بیت اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کا حج کیلئے احرام باندھنے کے بعد سواری پر بیٹھنے کا وقت آیا تو خوف خدا سے رنگ زرد پڑگیا اور ایسا لرزہ طاری ہوگیا کہ زبان سے لَبَّيْكَ تک نکل نہیں سکا۔ لوگوں نے کہا! آپ لَبَّيْكَ کیوں نہیں کہہ رہے ہیں تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! ڈر لگتا ہے کہ میں اِدھر لَبَّيْكَ کہوں اور اُدھر کہیں سے جواب ملے ’’لَا لَبَّيْكَ ‘‘ یعنی تیری حاضری قبول نہیں، مگر جب جیسے ہی زبان سے لَبَّيْكَ نکلا بیہوش ہوکر سواری سے گرپڑے۔ {تذکرے اور صحبتیں}
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ روزانہ تقریباً ایک ہزار نفل رکعتیں ادا کرتے تھے۔ اور وصال تک اس طرح کے معمول میں فرق نہیں آیا، اس عبادت کی وجہ سے زین العابدین کے لقب سے نوازے گئے۔ عبادتوں میں اخلاص اور للّٰہیت آپ کے اندر بے انتہاء تھی، یہی نہیں بلکہ راتوں رات نفل عبادات میں اتنے منہمک ہوجاتے کہ بارگاہ رب العزت میں حضوری کے وقت بدن میں ایک قسم کا لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔
نماز کی حالت میں کچھ بھی ہوجائے حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ کو اس کی کوئی خبر نہ ہوتی تھی۔انفاق فی سبیل اﷲ کا یہ عالم تھا کہ حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ اپنے اندر دریادلی اور فیاضی کا خاص وصف لئے ہوئے تھے۔ راہِ خدا میں بے حساب دولت لٹاتے تھے، ہمیشہ ضرورت مند کی مدد کیلئے اپنا دست کرم دراز فرمایا کرتے تھے۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ کے وصال کے بعد معلوم ہوا ہے کہ خفیہ طور پر مستقل تقریباً سو {۱۰۰} گھروں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ بنفس نفیس راتوں میں ضرورت مند لوگوں کے گھر گھر جاکر صدقات پہنچاکر آتے تھے۔ وصال کے بعد معلوم ہوا ہے کہ آپ رات کے موقع پر محتاجوں کے گھر راست جاکر تعاون کرتے تھے۔حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ سائل حضرات یعنی مانگنے والے لوگوں کا بڑا احترام کیا کرتے تھے، جب بھی کوئی سائل آتا تو فرماتے میرے توشہ کو آخرت کی طرف لے جانے والے مرحبا پھر اس کا استقبال کرتے، مانگنے والے کو خود اٹھ کر دیتے اور فرماتے تھے کہ صدقات، مانگنے والے کے ہاتھ میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتے ہیں۔
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ عمر بھر میں دومرتبہ اپنا تمام کا تمام مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں دیدیا۔ کسی نے سوال کیا کہ سب سے زیادہ سعادت مند کون ہے ؟ اس سوال کے جواب میں آپؓ فرمائے کہ وہ شخص جب راضی ہو تو اس کی رضا اُسے باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراضگی اُسے حق سے نہ نکالے۔
zubairhashmi7@gmail.com