حضرت سید احمد بادپا رحمتہ اللہ علیہ

   

مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی
سرزمین حیدرآباد کی ایک برگزیدہ ہستی جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت سید احمد اور لقب بادپا ہے۔ آپ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت دہلی میں ہوئی اور وہیں سکونت پذیر ہوکر ترقی کے منازل طے فرمائے۔ حضرت محبوب الٰہی نے فروغ سلسلہ چشتیہ کے لئے صوفیہ کرام کو دکن کی سرزمین دولت آباد کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ اولوالعزم صوفیہ کرام کی جماعت ۷۰۹ ؁ھ میں دہلی سے دکن تشریف لائی‘ جس میں حضرت سید احمد بادپا ؒکا نام جلی حرفوں میں نظر آتا ہے۔ بحکم پیر و مرشد آپ آصف نگر (فرسٹ لانسرز) کے پہاڑی علاقہ میں فروکش ہوئے اور یہاں مستقل قیام فرمایا۔اس وقت شمالی ہند میں سلطان علاء الدین حلجی نے حکومت کی باگ ڈورسنبھال رکھی تھی اور علاقہ تلنگانہ (جس کی راجدھانی ورنگل تھی) میں راجہ رانا پر تاب کی حکومت تھی۔انقلابات زمانہ کی وجہ سے حضرت سید احمد بادپا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف کا نشان باقی نہیں رہاتھا۔ اسی دوران نظام آصف جاہ چہارم کے زمانے میں بالن چودھری قصاب کی بکریاں پہاڑ پر چرنے گئیں اور وہیں گم ہو گئیں۔ قصاب پریشان ہوکر مارامارا پھر رہا تھا۔ ہرممکن تلاش کے باوجود بکریوں کا پتہ نہیں چلا۔ اسی اثناء میں حضرت کے مزار شریف کے کچھ آثارچرواہے کو نظر آئے۔ چنانچہ اس نے اپنے مالک بالن چودھری سے سارے واقعہ کاذکر کیا۔ بالن چودھری نے اسی وقت یہ نذر مانی کہ اگر بکریاں مل گئیں تو میں آپ کی نیاز کرواؤں گا۔ اسی شب آپ نے چودھری کے خواب میں آکر فرمایا ’’میں سید احمد ہوں‘ تیری بکریاں فلاں پہاڑی کے دامن میں چر رہی ہیں ‘‘ چودھری صبح بیدارہوکر پہاڑ پر گیا اور وہاں بکریوں کو دیکھاتو اس کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ اس واقعہ کے بعدآپ کی شہرت میں اضافہ ہوا اور نواب آصف جاہ ناصر الدولہ بہادر بھی اپنے اہل و عیال و احباب کے ساتھ زیارت کا شرف حاصل کرتے رہے۔ چنا نچہ اسی اعتقاد کی بنیاد پر کئی رؤسائے دکن کی قبور بھی آپ کے مزار شریف کی مغرب جانب موجود ہیں۔ آپ کا لقب ’’بادپا‘‘ اس لئے مشہور ہوا کہ آپ کی پیر و مرشد حضرت محبوب الٰہی نے آپ کو یاد فرماتو آپ فوراً دہلی تشریف لے گئے اور شیخ طریقت کی قدمبوسی فرماکر اسی شب پھر دکن تشریف لائے۔ آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو ’’بادپا‘‘ کہہ کر یاد فرمایا۔ آپ کا عرس شریف اوائل جمادی الاول میں ہوتا ہے۔