حضرت شاہ محمد خالدؔ وجودی شمسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

   

سید خلیل احمد ہاشمی

آپ کا اسمِ گرامی خالد ابی اللیل المعروف خالد بن جانثار یار جنگ ہے آپ کو سلطان الاسرار‘ شیخ الکامل‘ ذرہ نواز محبوبِ رحمانی بدرالدین خواجہ ابوالفیض شاہ محمد خالد وجودی قادری الچشتی علیہ الرحمۃ جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اور آپ ؒ کے والدِ بزرگوار حضرت عوض ابی اللّیل ؒ نواب جانثار یار جنگ ؒ ہیں ۔آپ ؒ کے والدِ ماجد ملک یمن (جزیرۃ العرب) سے حیدرآباد دکن تشریف لائے اور بادشاہ وقت آصف جاہ ششم نواب میر محبوب علی خان نے اپنے اے ڈی سی کے باوقار عہدہ پر فائز فرمایا ۔ حُسنِ خدمات کی بناء پر آپ کو جانثارِ یار جنگ کے خطاب سے بھی سرفراز کیا گیا ۔ حضرت خالد ؒ بن جانثار یار جنگ کی ولادت ۶؍رجب ۱۲۹۷؁ ھ مطابق ۶؍ ڈسمبر ۱۸۷۹؁ء حیدرآباد دکن میں ہوئی ۔ آپ شافعی المسلک قادری چشتی سہروردی رفاعی مشرف وحدت الوجود مذہب کے حامل تھے ۔ آپ ؒ کا نسبی سلسلہ پدری عرب کے مشہور امراء قبیلہ ابی اللیل الہاشمی سے ہے اور سلسلہ مادری سید جلال الدین جانیان جہاں گشت بخاری ؒ سے ہوتا ہوا امام الاولیاء حضرت سید ابو العباس احمد کبیر رفاعی شافعی ؒ سے جا ملتا ہے۔
حضرت خالدبن جانثار یار جنگ ؒ کو اپنے پیرومرشد حضرت شاہ ابو رضا سید بادشاہ محی الدین حسینی وجودی ؔ القادری علیہ الرحمۃ اور دادا پیر حضرت خواجہ شمس الدین علیہ الرحمۃ اورنگ آبادی سے راست تربیت اور فیضان وتوجہ خاص حاصل رہی ۔ جو آپ ؒ کو ایک امیر سے فقیرِ کامل بنادیا۔ آپ ؒ کی پیر پرستی اور خود پیر ؒ کی توجہ خاص نے آپ ؒ کو فنافی الرسول و فنافی اللہ کی منزلیں طئے کرادیں۔
حضرت خالدبن جانثار یار جنگ ؒکو قرآن وحدیث پر گہری بصیرت حاصل تھی ۔ اصولِ فقہ‘ ادب اور تصوف پر خاص دسترس کے حامل رہے ہیں ۔ آپ ؒ استادِ سخن اور باصلاحیت شاعر بھی رہے ہیں۔ آپ ؒ کا کلام’’خیالستانِ خالد‘‘ حمد باری تعالیٰ نعت رسول مقبول ﷺ مناقب اولیاء کرام‘ غزلیات ورباعیات علوم عرفانی و تصوفِ عشق رسول ﷺ سے بھرا ہوا اُردو و فارسی زبان میں ضخیم مجموعہ کلام ہے ۔آپؒ کے چند ارشادات پیش خدمت ہے : ٭ آپ ؒ کی نگاہ حقیقت میں دنیوی زندگی کی اہمیت نہ تھی ۔ آپ اکثر فرمایا کرتے ’’میگزرد‘‘ (یہ دنیا ہے گزر جاتی)۔ ٭ اسلام صرف سادہ زندگی کی تعلیم دیتا ہے‘ کسی لہو لعب میں مبتلا ہونے نہیں دیتا ۔ صرف اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر چلاتا ہے ۔ ٭ اللہ کے مظہرِ اتم کون ہیں؟ سرکار دو عالم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ اللہ رب العزت کا مرتبہ ’’احدیت‘‘ ہے وہ تنزل فرماکر مرتبہ ’’وحدت‘‘ میں آکر جو مرتبہ اجمال یعنی حقیقت محمدی ہے‘ حقائق اشیائے کائنات کو جو مرتبہ ’’واحدیت‘‘ میں نمایاں ہیں ’’حکم کُن فرماتا ہے تو تمام چیزیں کائنات میں پیدا ہوجاتی ہیں یعنی ظہور میں آتی ہیں ۔٭ غور کریں‘ اللہ کہنے میں ایک حرکت اور ایک سکون ہے ۔ اسی طرح ہمارے ہر عمل میں بھی ایک حرکت ایک سکون ہوتا ہے ۔ خواہ ہم چلیں ‘ ہاتھ اٹھائیں‘ پاؤں ڈالیں‘ زبان چلائیں وغیرہ گویا اس طرح ہم سرتا پا’’عابد‘‘ ہیں شرط صرف یہ کہ اس (اللہ) کا خیال رہے ورنہ غافل ہیں ’’یعنی غیر عابد‘‘ ہیں ۔ مقصدِ حیات کے خلاف ہیں ۔٭ یاد رکھو ! اللہ کے خیال میں‘ اُس کی حضوری میں گزار کرو۔غفلت سے بچو اللہ کا فضل ہوجائے تو یہ سب کچھ آسان ہے ہمیشہ اس کے فضل کے طالب رہا کرو تو پھر خیر ہی خیر ہے ۔ ان شاء اللہ
بالآخر آپ ؒ نے بعمر ۱۱۱ سال ۱۱ ؍ جمادی الثانی ۱۴۰۸؁ ھ بوقت فجر رحلت فرمائی ۔آپ ؒ کا مزارِ مبارک بارکس حیدرآباد میں حضرت وجودیؔ القادریؒ کی گنبدِ مبارک کے جوار میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔