حضرت شیخ احمد سرہندی امام ربانی مجدد الف ثانی

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

شیخ احمد بن عبد الاحد زین العابدین فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مجدد الف ثانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ در اصل ان کا خطاب ہے جو اتنا مشہور ہوگیا کہ اصل نام تاریخ و تذکرہ کی کتابوں میں بہت ڈھونڈنے کے بعد ملتا ہے ۔ حضرت امام ربّانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ولادت ۱۴شوال ۹۷۱ہجری جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں سرہند میں ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند فراغ ۹۸۸ھ میں حاصل کی ۱۰۰۷ ھ میں آپ کے والد ِ بزرگوار شیخ عبدالاحد علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ سے نسبت حاصل کی ۔ ۱۰۰۸ھ میں دہلی تشریف لا کر ، زبدۃ العارفین حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا اور اسی سال حضرت شاہ سکندر کیتھلی (نبیرہ شیخ کمال کیتھلی) نے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا خرقہ خلافت حضرت مجدد کو عطا کیا۔ عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے۔ آپ کا وصال پر ملال ۶۳ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ۲۹ صفر المظفر ۱۰۳۴ھ میں ہوا۔(کچھ کتب کے مطابق ۲۸ صفر المظفر کو آپ کا وصال ہوا) اپنے وصال کی خبر آپ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی، جوکہ آپ کی کرامت ہے۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ تھے۔ آپؒ کے منتخبہ ارشادات پیش ہیں :

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات
اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے: نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔

(مکتوب ۶۹جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ ۸۶)
حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کائنات: حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ’’ اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لئے چھوڑدیا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لئے پیدا کیا ‘‘۔ (مکتوب ۸ جلد دوم صفحہ ۱۸)
معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی: اللہ عزوجل نے اپنے محبوب ﷺ سے ارشاد فرمایا۔ لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا لَوْلَاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرُّبُوْ بِیَّۃَ یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔
(مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)
مجدد صاحب کی زندگی کا مرکز و محور: مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اسلئے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے۔ (مکتوب )
اہلبیت کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب ﷺ کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور ﷺکے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی۔
اصحاب رسول سے محبت : حضور اکرم ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہئے۔ اور حضور ﷺہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہئے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور ﷺکیساتھ محبت ہے، انکے ساتھ عداوت حضور ﷺہی کیساتھ عداوت ہے۔ (مکتوب)
تقلید واجب ہے: ۔مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کے لئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کرکے اسی پر عمل کریں۔
بے ادبوں اور گستاخوں سے صلح جائز نہیں: حضور ﷺ کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور ﷺکے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول ﷺکے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہئے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہئے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہئے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہئے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہئے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہئے۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦)
بادشاہ حکمراں کی حیثیت: رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے۔
وصال : ایک دن بیماری کے دوران میں فرمایا:آج ملاوی کنت سون سکھی سب جگ دیواں ہار (آج دوست کا روز وصال ہےاے محبوب میں تمام دنیا کو اس نعمت پر قربان کرتا ہوں)۔ ۲۸یا ۲۹ صفر ۱۰۳۴ھ مطابق ۱۰ دسمبر ۱۶۲۴ء کو وصال فرمایا اورسر ہند میں طلوع ہونے والا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔آپ کامزار پرانوار سرہند شریف (ہندوستان)میں مرکزِ انوار وتجلیات ہے۔
(اخذ و استفادہ : آپ کی حیات مبارکہ پر لکھے ہوئے
مضامین و ویکیپیڈیا)