حضرت صوفی عبدالقادر باشاہ قادری شاذلی ؒ

   

حضرت صوفی عبدالقادر باشاہ قادری چشتی شاذلی ادونی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۹۵۳ء کو ادھونی ( قدیم نام امتیاز گڑھ، اے پی) کے ایک دینی گھرانے میں ہوئی۔ آپؒ کے دادا داؤد صاحب اور والد الحاج اﷲ بخش صاحب نقشبندی ہیں جو انتہائی سادہ مزاج ہونے کے ساتھ صوم و صلوٰۃ کے پابند گزرے ہیں۔ والد گرامی الحاج اﷲ بخش صاحب کاپیشہ زراعت اور تجارت تھا۔ آپؒ نے اپنے والدین کی خوب خدمت کی ۔ حضرت صوفی صاحب کی والدہ محترمہ کی وصیت تھی کہ ان کی نماز جنازہ خود حضرت عبدالقادر باشاہ قادری پڑھائیں اور سپرد خاک کرے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت والدہ کا انتقال ہوا تو مولانا بمبئی کے دورے پر تھے مگر عین وقت پر جب کہ جنازہ ’’مسجد مولانا ‘‘ میں لایا گیا تو آپ وہاں کرشماتی طورپر پائے گئے حالانکہ آپؒ کے آنے کی اُمید بیحد کم تھی کیونکہ بمبئی کافی دوری پر ہے اور آپؒ کو وفات کی اطلاع بھی نہ تھی ۔ والدہ کی وصیت کے مطابق آپؒ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
آپؒ ایک مرشد ، صوفی ، عالم ، واعظ ، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے کافی مقبول تھے ۔ آپؒ نے تحصیل علوم عربیہ دینیہ کے علاوہ عصری علوم میں بھی دسترس حاصل کی۔ آپؒ نے ’’بحرالعلوم محمد عبدالقدیر صدیقی قادریؒحیات و خدمات ‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ۔ آپؒ بچپن ہی سے بزرگان دین کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آپؒ نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اپنے منفرد خطاب سے اپنی ایک الگ پہچان بنائی ۔ہزاروں مریدین آپؒ کے آگے زانوئے ادب کا شرف حاصل کرچکے ہیں ۔ آپؒ ہمہ تن اپنے مریدوں کی روحانی تربیت میں اپنا قیمتی وقت صرف کیا کرتے تھے۔ ’’فصوص الحکم ‘‘ کا درس آپ کو بے حد پسند تھا چنانچہ شاہ آباد میں آپ نے پہلے اور پھر حیدرآباد میں مسلسل اس کا درس دیکر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ ادونی میں آپ نے خانقاہی نظام جاری فرمایا اور اپنے والد سے ترکہ میں ملی زمین خانقاہ قادریہ کیلئے وقف کردی ۔ اسی خانقاہ میں ہرسال بلاناغہ سالانہ جشن غوث پاک منعقد ہورہا جس میں دوردراز سے مریدین و معتقدین حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت صوفی علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں پیر بھی تھے، محقق بھی تھے ، پروفیسر(ڈاکٹر) بھی اور سب میں بڑھ کر خطیب وقت تھے ۔ زبان شیریں تھی ، خطابت کا جوہر ایسا تھا کہ بات دلوں میں اُتر جاتی تھی۔ آپؒ عالم اسلام کی ان چیدہ چیدہ شخصیات میں سے ایک تھے کہ جنہیں اللہ رب العزت نے فن خطابت میں ید طولیٰ عطا فرمایا تھا۔ وہ اپنے دور کے مرجع خلائق تھے۔ پوری دنیا میں ان کے مریدین کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ ان کی یادگار، ان کا علمی سرمایہ (خطبات عارفانہ ، مقامات مصطفیـ ، مخزن تصوف و دیگر کتابیں ) ہیں جو انھوں نے حیدرآباد میں قیام کے دوران اور اُس سے قبل ادونی میں اپنے مریدین و معتقدین کے قلوب و اذہان کو تصوف کی تعلیمات سے لبریز کرنے کےلئے شائع کی تھی ۔ہزاروں مریدین و معتقدین اور قرب وجوار کے لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر علم و معرفت کا یہ آفتاب ۹ ؍ربیع المنور ۱۴۳۸؁ھ مطابق ۹ ڈسمبر ۲۰۱۶؁ء جمعہ کے روز اس خاکدان گیتی میں پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے کے بعد غروب ہوگیا۔
فرزند و جانشین حضرت صوفی محمد زبیر باشاہ قادری چشتی شاذلی کی زیرنگرانی حضرت صوفی عبدالقادر باشاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کے تیسرے عرس شریف کی تقاریب اس سال ۸ تا ۹ ربیع المنور کو بمقام خانقاہِ قادریہ ، ادونی عقیدت و احترام سے منعقد ہوگی ۔ (ح م ب ع ر )