حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں

   

مہاراشٹر اور ہریانہ الیکشن ۔ بی جے پی کو دھکہ
370 کو عوام نے مسترد کردیا ۔ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی

رشید الدین

جس طرح رات کی تاریکی میں روشنی کرنے سے دن کہا نہیں جاسکتا ٹھیک اسی طرح مہاراشٹرا اور ہریانہ کے نتائج کو بی جے پی اپنی کامیابی قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعدبی جے پی خود کو ناقابل تسخیر تصور کررہی تھی۔ پارٹی کو یقین تھا کہ مودی کے جادو کا اثر آئندہ پانچ برس تک برقرار رہے گا لیکن لوک سبھا چناؤ کے تین ماہ بعد مہاراشٹرا اور ہریانہ میں پارٹی کو دھکہ لگا۔ مودی۔ امیت شاہ جوڑی کے لئے یہ نتائج خواب غفلت سے جگانے کا سبب ثابت ہوئے۔ دونوں بی جے پی برسراقتدار ریاستوں میں پارٹی کی حکومت تو کسی طرح دوسری میعاد کے لئے قائم ہوجائے گی لیکن دونوں جگہ بی جے پی کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ دونوں ریاستوں میں گزشتہ کے مقابلے اس بار بی جے پی کی نشستوں میں کمی آئی ہے۔ مہاراشٹرا میں 200 نشستوں کا خواب ادھورا رہ گیا تو ہریانہ میں اب کی بار 75 پار کا نعرہ لگایا گیا تھا لیکن بی جے پی سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی۔ نشستوں کی تعداد گھٹ گئی لہذا آزاد اور دیگر کی تائید سے حکومت کی تشکیل کا منصوبہ ہے۔ اس طرح کی حکومت مستحکم کہلائی نہیں جاسکتی۔ کسی بھی وقت عدم استحکام کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور کانگریس نے بہتر مظاہرہ کے ذریعہ خود کو اقتدار کی سرحد تک پہنچا دیا ہے۔ کانگریس کے مضبوط موقف اور دیگر جماعتوں کی مخالف بی جے پی پالیسی کسی بھی وقت سیاسی طوفان کا سبب بن سکتی ہے۔ ادھر مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حلیف شیوسینا گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی نشستوں میں کمی ہوئی لیکن شیوسینا کی نشستوں میں اضافہ ہوا لہذا تشکیل حکومت کے سلسلے میں شیوسینا اپنی شرائط منوانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ مہاراشٹرا میں کانگریس اور این سی پی کی نشستوں میں اضافہ بی جے پی کیلئے چیلنج سے کم نہیں۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا مظاہرہ مایوس کن اور توقع کے برخلاف رہا جبکہ اپوزیشن کی نشستوں میں اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود بی جے پی کی جانب سے بہتر مظاہرہ کا دعویٰ تاریکی میں روشنی کرتے ہوئے دن کی خوش فہمی کی طرح ہے۔ ہریانہ میں تشکیل حکومت کے لئے دوسروں پر انحصار اور مہاراشٹرا میں حلیف جماعت کی چیف منسٹر کی کرسی پر نظر سے بی جے پی کمزور موقف میں آچکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں ان ریاستوں میں بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی تھی۔ پارٹی وہی ، قائدین وہی ، ایجنڈہ وہی اور اسٹار کمپینر کی جوڑی بھی وہی یعنی مودی۔ امیت شاہ۔ اس کے باوجود رائے دہندے مودی اور امیت شاہ کی لفاظی کا شکار نہیں ہوئے۔ تین ماہ کے بعد یہ تبدیلی یقینی طور پر رائے دہندوں میں شعور بیداری کا ثبوت ہے۔

دونوں ریاستوں میں بی جے پی نے کشمیر، 370 کی برخاستگی اور سرحد پار دہشت گرد ٹھکانوں پر حملے کا ڈرامہ کیا لیکن رائے دہندوں نے ایجنڈے کو مسترد کردیا۔ عوام کو زیادہ دن تک حقیقی مسائل سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کی غیرموجودگی میں دونوں ریاستوں میں عوام نے الیکشن لڑا۔ کانگریس قائدین انتخابی مہم پر راست توجہ نہیں دے سکے۔ راہول گاندھی نے مہاراشٹر اور ہریانہ میں محدود انداز میں مہم چلائی جبکہ سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی انتخابی مہم سے دور رہے۔ اپوزیشن کی غیرموجودگی کو واضح طور پر محسوس کیا گیا اور رائے دہندوں نے اپنے مسائل پر الیکشن لڑا۔ ملک کا قومی میڈیا جو بی جے پی کا ’’گودی میڈیا‘‘ ہے، اس نے بی جے پی اور حکومت کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لیا اور بی جے پی کے حق میں ماحول بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کرنے میں میڈیا ناکام ہوچکا ہے۔ وہ کسی بھی طرح مودی اور امیت شاہ کے ’’بھجن‘‘ میں مصروف ہے۔ یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہے گی۔ عوام کو مہنگائی، روزگار اور مودی حکومت کے وعدوں کی تکمیل کی فکر ہے۔ رائے دہی سے ایک دن قبل مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تاکہ انتخابی مہم کو دیش بھکتی کا رنگ دیا جاسکے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج سے واضح ہوچکا ہے کہ نریندر مودی کو کامیابی کے ساتھ دوسری میعاد کی تکمیل آسان نہیں ہے۔ مودی اور امیت شاہ نے دونوں ریاستوں کی مہم میں 370 اور پاکستان کو انتخابی موضوع بنایا۔ انہوں نے اپوزیشن کو چیلنج بھی کیا کہ وہ برسراقتدار آنے پر 370 کی بحالی کا وعدہ کرے۔ جس طرح بی جے پی نے کشمیر اور پاکستان کو انتخابی موضوع بنایا، اگر اسے عوام کی منظوری حاصل ہوتی تو دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو دوتہائی یا تین چوتھائی نشستیں حاصل ہوتیں، لیکن یہاں تو گزشتہ سال سے کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور بی جے پی کو اپنے ایجنڈے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ انتخابی مہم میں بی جے پی نے 370 کی برخاستگی کو ایک کارنامہ کے طور پر پیش کیا جیسے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر، ہندوستان کی تحویل میں آچکا ہے۔ اپنے ہی علاقہ کے عوام کو تین ماہ سے زائد عرصہ سے محروس رکھتے ہوئے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ کشمیر کے نہتے عوام پر ظلم و زیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بی جے پی کا حقیقی کارنامہ ہے۔ ہندوستان کے خمیر میں محبت، رواداری اور ہم آہنگی موجود ہے اور عوام نے کبھی بھی فرقہ پرست ایجنڈے کو منظوری نہیں دی۔ مہاراشٹر اور ہریانہ میں بی جے پی کی کامیابی کے سلسلے میں مودی اور امیت شاہ کے دعوے ’’گرے تو گرے اپنی ٹانگ اونچی‘‘ محاورے کے مصداق ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق اگر بی جے پی کے فرقہ پرست ایجنڈے کو عوام کی منظوری حاصل ہوتی، تو دونوں ریاستوں میں اپوزیشن کا صفایا ہوجاتا۔

ہندوستان کی سرحدوں کی حفاظت میں ناکام بی جے پی حکومت کشمیر تنازعہ کو کس طرح حل کرپائے گی؟ اروناچل اور دیگر ریاستوں میں مختلف ممالک سے سرحدوں کے تنازعے جاری ہیں۔ چین، پاکستان اور امریکہ کے علاوہ بنگلہ دیش بھی وقفہ وقفہ سے ہندوستان کے سرحدی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکی کانگریس کے ارکان اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے کشمیر کے حالات پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ضمن میں دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے، لیکن نریندر مودی کو کشمیریوں کی تکالیف کی کوئی فکر نہیں۔ بی جے پی کو یقین تھا کہ 370 کی برخاستگی کے بعد ملک کے عوام سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے لیکن جس انداز میں حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ امریکہ اور دیگر ممالک نے کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ وادی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے انکشاف کیا کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود آج تک بھی کشمیری عوام نے 370 کی برخاستگی کی تائید نہیں کی۔ عوام اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے صبح کے اوقات میں بازار میں دکھائی دیتے ہیں اور پھر دوپہر سے ان کی ہڑتال شروع ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ کشمیری عوام نے پرتشدد احتجاج کے بجائے خاموشی سے اپنی ناراضگی درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گورنر جموں و کشمیر نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ عوام کو قائدین کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری قائدین کے اہل و عیال مزے میں ہیں جبکہ عوام کو سکیورٹی فورسیس سے ٹکرانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ گورنر جو کشمیر میں اپنی ذمہ داری نبھانے کا حالیہ عرصہ میں آغاز کیا ہے، انہیں بنیادی صورتحال کا علم نہیں۔ فوج اور سکیورٹی فورسیس جو رپورٹ پیش کررہے ہیں، اسی پر گورنر اتفاق کرتے ہوئے عوام کے خلاف پابندیوں میں شدت پیدا کررہے ہیں۔ بی جے پی کو جان لینا چاہئے کہ ملک میں نفرت کی سیاست کو عوام قبول نہیں کریں گے۔ حکومت ، اکتوبر کے ختم سے کشمیر میں 370 کی برخاستگی کے احکامات پر عمل آوری کا آغاز کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ کا فیصلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ ملک بھر کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ مسلم فریقوں نے عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا جبکہ ہندو فریقوں کی جانب سے عدالت کے فیصلے کے بجائے مندر کی تعمیر کے آغاز کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ کیا سپریم کورٹ شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ دے گا ، یا پھر آستھا کی بنیاد پر اراضی کی ملکیت طئے کی جائے گی۔ حکومت اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے پر من و عن عمل آوری کو یقینی بنائے۔ اگر ثبوت اور گواہوں کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ آتا ہے تو ہندوستان کی عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔ ملک کے حالات پر ندا فاضلیؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے:
حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں
حکومتیں جو بدلتا ہے وہ سماج بھی ہو