حکومت اوراپوزیشن کا ٹکراو

   

جمہوری طرز حکمرانی میں حکومت اوراپوزیشن میں نظریاتی اختلافات فطری بات ہیں۔ حکومت کا اپنا کام کرنے کا انداز ہوتا ہے تو اپوزیشن کی رائے اس سے مختلف ہوتی ہیں۔ تاہم ایسے بھی بیشتر مواقع آئے ہیںجب اپوزیشن اور حکومت دونوںہی ملک کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل پر ایک رائے نظر آئے ہیں۔ بین الاقوامی فورمس میں حکومت کے موقف کی اپوزیشن کے قائدین نے نمائندگی کی ہے ۔ یہ صحتمندانہ اختلاف رائے کی علامت تھی ۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے مابین اختلاف رائے بڑھتا جارہا ہے اور یہ ایک طرح سے سیاسی دشمنی میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ بعض صورتوں میں سیاسی اختلاف دشمنی کی صورت بھی اختیار کر رہا ہے اور یہ صورتحال جمہوری طرز حکمرانی کیلئے اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ ہندوستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں حکومت میں بھی کئی جماعتیںہوتی ہیں تو اپوزیشن جماعتوں کی تعداد بھی خاطر خواہ ہوتی ہے ۔ ایسے میںسبھی جماعتوں کا ایک رائے ہونا تقریبا نا ممکن ہوتا ہے تاہم ان جماعتوںمیں اختلاف رائے تک بات محدود نہیں ہے بلکہ ٹکراو کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے اور یہ ملک کیلئے اچھی بات نہیںہے ۔ ہندوستان میں دیکھا جارہا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے مابین تقریبا ہر مسئلہ پر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ یہ ٹکراو ایک حد تک بھی نہیں ہے بلکہ اس کی حدیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے جیسی سوچ اس کے پس پردہ کارفرما دکھائی دے رہی ہے ۔ ملک میں گذشتہ چند برسوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیںان میں یہ بھی ایک سب سے اہم تبدیلی کہی جاسکتی ہے ۔ ہر مسئلہ کو سیاسی عینک سے دیکھا جانے لگا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں شخصی حدود تک پہونچ رہی ہیںاور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے بلکہ ذلیل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ روایت کم از کم ہندوستانی طرز حکمرانی یا جمہوریت میں کبھی دیکھنے میں نہیںآئی تھی ۔ صحتمندانہ اختلاف رائے کا ہمیشہ سے احترام ہوا ہے اور آگے بھی ہونا بھی چاہئے ۔
ملک میں برسر اقتدار این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا اتحاد کا سیاسی ٹکراو تو انتخابات میں دیکھنے میں آنا چاہئے ۔ وہاں بھی ایک دوسرے پر جائز اور واجبی تنقیدیں ہونی چاہئیں۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی بجائے اپنے اپنے ترقیاتی منصوبوںاور ملک کی بہتری کے پروگرامس کو پیش کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کی جانی چاہئے ۔ ایسا ہو نہیںرہا ہے ۔ ہر کوئی اپنی غلطی کو چھپانے کیلئے دوسروں کی غلطیاںڈھونڈ کر نکالنے میں مصروف ہے ۔ ملک کی بہتری اور ترقی پر کسی کی توجہ دکھائی نہیں دیتی ۔ حکومت جہاں ملک کو چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہے اور ملک کیلئے پالیسیاں اور پروگرامس بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے وہیں پارلیمنٹ کی کارروائی کو شیڈول کے مطابق چلانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دینا بھی حکومت کے فرائض میں شامل ہے ۔ اپوزیشن اگر کسی مسئلہ پر کوئی تجاویز پیش کرتی ہے تو ان پر غور کرنا اور ان کا جائزہ لینا بھی حکومت کا ہی فریضہ ہے تاہم اس روایت کو گذشتہ چند برسوں میں پوری طرح سے کچل دیا گیا ہے ۔ اپوزیشن کے وجود سے ہی انکار کیا جانے لگا ہے ۔ یہ سیاسی نعرے تو لگ رہے ہیں کہ اپوزیشن کاخاتمہ کرنا ہے اس کو اب عملی شکل بھی دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جمہوریت میں ایک موثر اور مستحکم حزب مخالف کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ تاہم ہندوستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ایسا ہو نہیںرہا ہے ۔
حکومت سے سوال کرنے اور اس کے کام کرنے کے انداز پر تنقید کرنے والوںکو سیدھے قوم مخالف یا غدار قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ سیاسی اختلاف رائے کی انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ اپوزیشن اور حکومت میںکم از کم بنیادی مسائل پر اتفاق رائے ہونا چاہئے ۔ایک دوسرے پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی جائز اور واجبی ہونی چاہئے ۔ صرف سیاسی بالادستی اور اکثریت کے زعم میںمبتلا ہوکر کام کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ سماج کے سبھی طبقات اور سبھی اپوزیشن جماعتوںکو ساتھ لے کر چلنا اور انہیںاعتماد میں لینے کی کوشش کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس پر حکومت کو غور کرنا چاہئے ۔