خواتین اور بی جے پی قائدین کی ذہنیت

   

رہزنوں کی رہنمائی کا ہوا ایسا اثر
راستے کا ہر لٹیرا کارواں میں آگیا
خواتین اور بی جے پی قائدین کی ذہنیت
سارے ملک میں خواتین کی عزت و عصمت کا تحفظ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر شہری اوردیہی دونوں ہی علاقوںمیں خواتین پر مظالم اور ان کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔یہ مسئلہ اس وقت اور بھی سنگین صورت اختیار کرجاتا ہے جب برسر اقتدار جماعت کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاتی ۔ حالات اس وقت اور بھی بے قابو ہوجاتے ہیںخود برسر اقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والے قائدین اور کارکن خواتین کی عزت و عصمت کے محافظ کی بجائے ان کے لٹیرے بن جاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میںبی جے پی کے کئی قائدین کے خلاف عصمت ریزی اور خواتین کے ساتھ دست درازی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔اناؤ عصمت ریزی معاملہ میں بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب رکن اسمبلی جیل میںہیں۔ انہیں ایک سال بعد بی جے پی نے پارٹی سے خارج کیا ہے۔ اس کے علاوہ اب دہلی میں بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی پر خود ان کی بہو نے بندوق کی نوک پر عصمت ریزی کا الزام عائد کیا ہے ۔ حالانکہ یہ واقعہ ڈسمبر میںپیش آیا تھا تاہم اب اس کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ بہو کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈر و خوف کے عالم میں یہ شکایت درج نہیںکروائی تھی تاہم انہوں نے اب اپنے آپ میںحوصلہ پاکر قانون کی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان کی شکایت پر پولیس نے سابق رکن اسمبلی اجئے شوکین کے خلاف عصمت ریزی کا مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ اس کے علاوہ حالیہ دو چار دنوں میں کشمیر میںدفعہ 370 کی برخواستگی کے تعلق سے کشمیری لڑکیوں کے تعلق سے بی جے پی کے قائدین جتنی زبانیں اتنی بولیاں بولنے لگے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر بھی اسی طرح کے ریمارکس کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ کشمیر میںیہ دفعہ ختم ہوگیا ہے تو ہریانوی لوگوں کو کشمیر سے لڑکیاں لانے اور شادیاں کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔ اسی طرح سادھوی پراچی نے بھی ریمارک کیا تھا کہ اب ہندو نوجوانوں کو بی جے پی کو ووٹ دینا چاہئے کیونکہ بی جے پی انہیں کشمیری لڑکیوں سے شادی کا موقع فراہم کر رہی ہے ۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام قائدین کا برسر اقتدار بی جے پی سے تعلق ہے اور بی جے پی عوامی حلقوں میں اخلاقیات اوراقدار کی بات کرتی ہے ۔ دوسروں کو درس دینے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا لیکن اس کے قائدین ہی سماج میں گند پھیلاتے پھر رہے ہیں۔ اس کے قائدین لڑکیوں کی عصمت ریزی میں ملوث ہونے کے الزامات کا شکار ہیں۔ ان قائدین پر خود اپنی بہووں کی عصمت لوٹنے کا الزام ہے ۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی کے مرکزی قائدین اور حکومتوں کی جانب سے ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی جاتی ہے اور نہ کوئی سرزنش کی جاتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جو قائدین عصمت ریزی کے الزام میںجیل میں ہیں ان سے پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ جا کر ملاقات کرتے ہیںاور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہ بی جے پی کے دوہرے معیارات اور ڈوغلا پن ہے ۔ وہ سماج میں اور عوام میں بات تو کچھ کرتی ہے لیکن اس کا عمل ہوتا کچھ اور ہے ۔ وہ اپنے قول وفعل میں تضاد رکھتی ہے اور اپنے بیانات اور اپوزیشن و دیگر جماعتوں کو درس دینے کی کوشش کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کا کام کرتی ہے ۔ بی جے پی کو یہ تک احساس نہیںہوتا کہ اس کے خود قائدین پرخواتیناور لڑکیوں کی عصمت و عفت کو تار تار کرنے کے الزامات ہیں اور ان پر لگام کسنا اور انہیں پارٹی سے خارج کیا جانا چاہئے ۔
گذشتہ دنوں ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی قائدین کا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میںوہ انتہائی شرمناک حرکتیں کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے ۔ ایک بی جے پی یووا مورچہ کے لیڈر تھے تو دوسری بی جے پی خواتین مورچہ کی لیڈر ۔ اس طرح کے قائدین بی جے پی کیلئے ایسی صورتحال پیدا کرسکتے ہیںجس میں عوامی غیض و غضب پیدا ہوسکتا ہے اور پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ بی جے پی چونکہ ملک میں برسر اقتدار ہے اس لئے اس پر یہ بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ سماج میں خواتین کیلئے محفوظ اور پرسکون ماحول کو یقینی بنائے ۔ خواتین اور لڑکیوں میں اعتماد کی فضا پیدا کرنے کیلئے بھی بی جے پی اور حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ سماج میںاس کی ساکھ جو متاثر ہونے لگی ہے وہ بڑی تیزی سے اور بھی بگڑ جائگی اور عوام اسے سبق سکھانے پر اتر آئیںگے۔
مختلف ریاستوں میںسیلاب کی صورتحال
ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں کرناٹک و کیرالا کے علاوہ وسطی ریاست مہاراشٹرا میں سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں۔ لاکھوں افراد کیلئے مسائل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے اور کئی لوگ بے گھر ہوگئے ہیں جنہیں ریلیف کیمپوں میں رکھا گیا ہے ۔ ہزاروں ہیکٹر اراضی پر فصلوں کو نقصان ہوا ہے اور کئی اضلاع میںزندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی ہے ۔ یہ صورتحال کوئی پہلی بار پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ جن ریاستوں میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ تقریبا ہر سال ہوتی ہے ۔ ہر سال ان ریاستوں میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہر سال سینکڑوں افراد کی جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ ہر سال کئی لوگ اپنے کاروبار اور وسائل زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہزاروں گھر سیلاب اور بارش کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ریاستی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت ہو اس کی جانب سے ہر سال بارش سے نمٹنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ راحت و بچاو کے کام کئے جاتے ہیںلیکن سرکاری سطح پر جو ذمہ داری ہر سال اس نقصان سے بچنے کی ہوتی ہے اس کی تکمیل پر کوئی توجہ نہیں کی جاتی ۔ حکومتوں کو سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے قبل از وقت منصوبہ تیار کرتے ہوئے ہر سال ہونے والے نقصان سے بچنے پر توجہ کی ضرورت ہے ۔