خواتین کے خلاف جرائم پر بھی سیاست

   

آج کے دور کی تاریخ جسے لکھنی ہو
اس سے کہہ دو کہ قلم خوں میں ڈبو کر آئے
ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں دو خواتین کو برہنہ کرکے گشت کروائے جانے کے واقعہ نے سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا کردی ہے ۔ لوگ اس واقعہ پر برہم ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا حکومت نے منی پور کوفراموش ہی تو نہیں کردیا ؟ ۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے منی پور میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت نے اس پر قابو پانے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے ۔ یہ ایک الگ پہلو ہے ۔ تاہم دو خواتین کو برہنہ کرکے گشت کروائے جانے کا ویڈیو جیسے ہی سوشیل میڈیا پر وائرل ہوا سارے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ اس واقعہ کے بعد بھی طوعا و کرہا وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ریاست کی صورتحال کے تعلق سے چند سیکنڈ کچھ بولنے کی زحمت گوارا کی حالانکہ وہ گذشتہ دو مہینے سے اس مسئلہ پر مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہی تھے ۔ جیسے ہی منی پور کا یہ ویڈیو وائرل ہوا اور جیسے ہی ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی ویسے ہی اس مسئلہ پر سیاست بھی شروع ہوگئی ۔ جہاں کانگریس اور دوسری جماعتوں نے حکومت سے سوالات کی بوچھار کردی اور اب تک ریاست میں حالات کو قابو میں کرنے اور امن بحال کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے جانے پر سوال کیا وہیں کچھ دوسری جماعتوں نے بھی حکومت کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی کارروائی کرنے کی بجائے اپوزیشن کو نشانہ بنانے اور جوابی سوال کرنے سے ہی اسے زیادہ دلچسپی رہ گئی ہے ۔ اب حکومت کے کئی ذمہ دار کانگریس قائدین اور دوسروں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ملک کی دوسری ریاستوںمیں بھی خواتین کے ساتھ جرائم کے واقعات پیش آتے ہیں اس پر یہ جماعتیں کیوں خاموش ہیں ؟ ۔ کانگریس اقتدار والی ریاستوں میں بھی خواتین کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوئے ہیںاس سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم ان واقعات کو منی پور واقعہ کے تناطر میں پیش کرتے ہوئے سوال کرنا انتہائی افسوسناک ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ایک واقعہ کسی اور دوسرے واقعہ کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کے دونوں ہی واقعات انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہی کہے جاسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ اس طرح کے تمام واقعات کی روک تھام پر توجہ کرنے کا ہی ہونا چاہئے ۔
حکومت کا جہاں تک سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ جرائم پر قابو پانے سے زیادہ یہ تقابل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس پارٹی کے اقتدار والی ریاست میں جرائم کم ہو رہے ہیں اور کہاں زیادہ ہو رہے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم چاہے کہیں بھی ہو اور چاہے اس کے مرتکب کوئی بھی ہوں سبھی انتہائی شرمناک ہیں۔ انتہائی مذموم حرکات ہیں۔ ان کا ازالہ ہونا چاہئے ۔ ان کی روک تھام کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ اس مسئلہ پر سیاست کرنے کی بجائے ہر ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کو تعاون و اشتراک کے ذریعہ حالات پر قابو کیا جانا چاہئے ۔ جرائم کے انسداد اور سد باب کیلئے موثر حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے ۔ جامع اقدامات کرنے چاہئیں۔ خاطیوں کیلئے ایسی سزائیں تجویز کی جانی چاہئیں کہ دوسروں کیلئے باعث عبرت بنیں۔اس کی بجائے صرف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرنا انتہائی افسوسناک پہلو ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ برسر اقتدار جماعت میں شامل خاتون قائدین بھی اسی طرح کی روش اختیار کی ہوتی ہیں یا پھر وہ مکمل خاموشی اختیار کرجاتی ہیں۔ ملک میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم کو چوڑیاں بھیجنے والی خاتون لیڈرس بھی دو خواتین کو برہنہ کرکے گشت کروانے کے واقعہ پر لب کشائی سے گریز کرتی ہیں۔ یہ سیاست اور سیاسی قائدین کے دوہرے معیارات ہیں جو افسوسناک ہیں۔
جرم چاہے کسی کے خلاف ہو اور چاہے کسی نے بھی کیا ہو اس کی روک تھام ہو نی چاہئے ۔ خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ اس پر سبھی جماعتوں کو ایک رائے ہو کر مذمت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس پر سیاست کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس صورتحال کے تدارک کیلئے حکمت عملی بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ خواتین کی عزت و احترام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ۔ سماج میں ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے ۔بی جے پی قائدین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کانگریس اقتدار والی ریاست میں جرائم ہوتے ہیں تو وہ بی جے پی اقتدار والی ریاست میںجرائم کا جواز ہوسکتے ہیں۔ جرم ‘ جرم ہے چاہے کسی ریاست میں ہو اور اس کا مکمل سدباب کیا جانا چاہئے ۔
تلنگانہ میں بھی بلڈوزر کا تذکرہ
مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے تلنگانہ بی جے پی صدر کے عہدہ کا جائزہ حاصل کرلیا ہے ۔ انہوں نے تلنگانہ میں بھی بلڈوزر حکومت کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ پارٹی صدارت سنبھالنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کشن ریڈی نے ریاست میں کے سی آر حکومت کے خاتمہ کی بات کہی ہے ۔ یہ سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کا حق ہے کہ وہ دوسرے لیڈر اور جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائے ۔ تاہم ریاست میں نظم و قانون کی حکومت قائم کرنے اور عوامی خواہشات کے مطابق کام کرنے والی حکومت قائم کرنے کی بجائے بلڈوزر حکومت قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے جس سے بی جے پی اور اس کے قائدین کی منفی سوچ کا پتہ چلتا ہے ۔ جی کشن ریڈی کے تعلق سے عام تاثر یہ تھا کہ وہ ڈسیپلن کے پابند ہیں اور سیاست میں بھی سبھی طبقات کی اہمیت کو سمجھتے ہیںاور ان کو پسند کرنے والوں میں اقلیتی باشندے بھی شامل رہے ہیں۔ اگر وہ بھی بلڈوزر کی بات کرنے لگیں تو یہ افسوس کی بات ہے ۔ بلڈوزر حکمرانی کا حصہ نہیں ہے ۔ کئی ریاستوں میں بلڈوزر کے ذریعہ کی گئی کارروائیوں پر عدالتوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے باوجود تلنگانہ میں بلڈوزر کی وکالت کرنا افسوسناک ہے اور ریاست کے عوام کو بی جے پی قائدین کی زبان اور لب و لہجہ کو ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔