خوشی جستجو و صبر میں مضمر ہے

   

خواجہ رحیم الدین
(نیویارک)

خوشگوار زندگی کا فیصلہ ہم کو خود کرنا ہے۔ ہم جب پرسکون زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ ایک لمحہ میں کوئی ناخوشگوار حادثہ ہوجاتا ہے اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا تب کوئی چیز یاد آجاتی ہے اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں، ہم کو ان تمام حالات کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں، ہمیں وہ والدین نصیب ہوئے جنہوں نے کلچر اور دوسری برے چیزوں سے محفوظ رکھا، ہمارے بہن بھائیوں کے کچے ذہنوں کو سنوارنے بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑے ، یہی خوشی اور خوشگوار زندگی کے راز ہیں۔ اب ہم عمر کے جس دور سے گزر رہے ہیں، اچھے اور بُرے کو بہتر انداز میں فرق محسوس کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عمر کے مختلف تقاضے رکھے ہیں۔ والدین بھی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ خود کسی بھی حال میں ہوں، اولاد کی پریشانیوں اور ان کی خوشیوں میں برابر شریک رہتے ہیں۔
دوست صرف ایک ہوتا ہے، جس کو ہم ہر بات بتا دیتے ہیں اور وہ راز کو راز ہی رکھتا ہے۔ باقی تمام دوست صرف وقتی ہوتے ہیں، وہ خوشی میں رکاوٹ بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
خوشی اور خوشگوار زندگی کیلئے اچھے اخلاق کے اشخاص کا انتخاب کریں، زندگی میں اُتار چڑھاؤ بہت آتے ہیں، امیر ہو یا غریب تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ ہر ایک کو اپنے لحاظ سے تلخ تجربوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ دُکھی میں نیند نہیں آتی، خوشی میں بھی نیند نہیں آتی۔ مجبوری آنکھ بند کردیتی ہے ، چند دل کی بات ظاہر کرتے ہیں اور چند اپنے دلوں میں چھپا رکھتے ہیں، دلوں کو صاف رکھتے ہوئے خوشی کو خوشگوار بنالیں ، پریشانیاں اور جھوٹ بولنے والوں کی سن تو لیں اور پھر دور ہوجائیں، وہ خود بھی پریشان رہتے ہیں اور ہمکو بھی ذہنی تکلیف دیتے ہیں، وقت کے لحاظ سے اپنے دماغ کو کام میں مشغول رکھیں۔
ایک خاموشی سو جھگڑوں سے نجات دلاتی ہے، ایک میٹھا بول ، پیاری سی بات جس سے دوسروں کی پریشانی دُور ہوجائے، خوش اور خوشگوار تعلقات کے لئے ضروری ہے۔ خوشیاں ان ہی لوگوں کو ملتی ہیں جو دوسروں کو خوشیاں بانٹتے ہیں۔ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے بھی زوجین محنت کے ساتھ ساتھ صبر اور حوصلے سے کام لیں، انشاء اللہ خوشی کے ساتھ کامیابی مل جائے گی، کسی کا دل نہ دکھاؤ، اگر وہ شخص صبر کرلیا اور اللہ پر چھوڑ دیا، اس شخص کے لئے مسئلہ بن جائے گا، جب ہم کسی کو کچھ اچھا سکھاتے ہیں تو خود ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، اور ایسے میں خوشی حاصل ہوجاتی ہے۔ اگر شوہر بیوی کو قسم دے اور کچھ کہے تو وہ اس کی قسم کو پوری کردے اس میں خوشی ہے۔
مولانا روم ؒ کا کہنا ہے کہ ایک صاحب حیثیت شخص ایک حاجت مند کے قریب سے گذرا تو اس شخص کی حالت کو دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوا آنکھ نم ہوگئے۔ اس نے خدا سے عرض کیا کہ ائے مالک اس کو کچھ نہیں دیئے، اس لمحہ غیب سے آواز آئی کہ اللہ نے اس غریب شخص کی مدد کیلئے تجھے پیدا کیا ہے، اللہ اکبر میں سنا تھا کہ وہ جو ہوسکتا تھا وقت پر مدد کرنا شروع کردیا اور خوشیاں حاصل کرتا رہا اور وہ سوچا دنیا بھی چکی کچھ آخرت کی سبیل کرلیں۔
امریکہ اور بڑے ممالک میں بوڑھے اور طلباء رضاکارانہ خدمت کے لئے اسکول میں جاکر فری لیکچر دیتے ہیں، میں نے یہاں دیکھ کر انجینئرنگ، ڈاکٹری ، ایم بی اے وغیرہ پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں اور مالوں میں کچھ گھنٹے کام کرتے ہیں، امیر ہو یا غریب اپنی فیس آسانی سے نکال لیتے ہیں، اس کام کو عیب تصور نہیں کرتے، اپنی زندگی خوشی اور خوشگوار گزار لیتے ہیں اور اپنی تعلیم کے بعد اپنی مناسبت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی خوشی اور خوشگوار طریقہ سے گذار لیتے ہیں۔
انسانی معاشرہ میں اچھا فرد وہی ہے جو اپنے قول و فعل سے کسی کے لئے بھی تکلیف اور پریشانی کا سبب نہ بنے، کئی اشخاص، ایسے بھی ہیں جو دوسروں کی جائیداد کو ہڑپ لیتے ہیں، اپنے نام کرلیتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ میرا بھائی ہے، وہ میری بہن ہے، اس کا یہ کام عارضی ہے، اس میں خوشی کا کوئی دخل نہیں، رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: یہ بڑائی جہنم تک پہونچاتی ہے، وقتی غلط فائدہ کو وہ خوشی سمجھتے ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ اس خوشی سے سب کو محفوظ رکھے، خوشی اور ولولہ رکھنے والے انسانوں سے ملنا چاہئے اور میل جول بڑھانا چاہئے، گلوبند، اگر گل بدن میں تبدیل ہوجائے تو ماشاء اللہ زندگی میں خوش آئے گی اور خوشگوار زندگی گزرے گی۔
سرسید احمد خاں کہتے تھے تنقید اور مخالفت سے گھبرائیں نہیں، ہندوستان کو ایک دلہن کہتے تھے، ہندو بھائی اور مسلمان بھائی کو دو آنکھیں یہ تھے، خوش اور خوشگوار زندگی کے حالات کہتے ہیں، روحانی تکلیف دینے والے جھوٹ بولنے والے کے پاس حفاظت کے لئے دو فرشتے رہتے ہیں، جو جھوٹ کی بدبو سے دور چلے جاتے ہیں۔ وہ خوشی حاصل نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ فرماتے ہیں: کوئی مسلمان صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام تک 70,000 فرشتے اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور اگر شام کو اپنے بھائی کی عیادت کرے گا، صبح تک 70,000 فرشتے دُعا کرتے رہتے ہیں، یہی خوشی کی زندگی ہے، اس میں مریض بھی خوش اور عبادت گزار بھی خوش۔
ہمارے اپنے اخلاق و حسن سلوک کی ابتداء ہمارے اپنے گھر سے ہوتی ہے، ہر ایک گھر کا سکون اور چین میاں اور بیوی کے خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے، بس یہی خوشی ہے، خوشحال آرام و راحت صرف ترقی اور کامیابی ہی سے حاصل ہوتی ہے، جس مقصد سے ہم کام شروع کرتے ہیں، اس میں محنت کریں اور اس کو حاصل کرنے تک نہ چھوڑیں دیکھیں، اس میں خوشی ہی خوشی مضمر ہے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کردوں، علیگڑھ مسلم کالج کے ہاسٹل میں گائے کا گوش پکانے کی پابندی تھی، تاکہ کسی ہندو بھائی طالب علم کی دل آزاری نہ ہو، چمڑے کے مشکیزے کے پانی سے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی تو کنویں کھدوائے گئے یہ تھی، خوشگوار زندگی دونوں طرف کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا پہلا گریجویٹ ہندو بھائی طالب علم تھا، آج کے اس دور میں ان باتوں کو یاد کرنا ضروری ہے جس میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں اور آج بھی ہیں۔
ہم اپنے فارغ وقت غیرمنافع بخش تنظیموں کے ساتھ مل کر اچھے اچھے کام کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس معصوم اشخاص کو دین کا حوالہ دے کر دھوکہ نہ دیں اور خوشی محسوس نہ کریں۔ جو لوگ خوددار اور محنتی ہوتے ہیں وہ اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے مسائل حل کرلیتے ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، اس میں وہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور خوشی سے رہتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ کہتے ہیں:
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب اور خوش نصیب وہ لوگ نہیں تھے، جنہیں ہر طرف سے بہت کچھ ملا تھا بلکہ وہ لوگ تھے جن کے پاس دوسروں کو دینے کیلئے بہت کچھ تھا اور ہے، خوشگوار زندگی میں کبھی غم کبھی خوشی تو آتی جاتی رہتی ہیں، اس پر صبر کرلینا ہی بہادری ہے، ہر وقت خوشگوار زندگی کے لئے خوشی کے راستے ڈھونڈتے رہیں۔
مرزا غالب ؔکہتے ہیں:
شمع ہستی کا اسد کسی سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
انسان کو شدید خواہش کامیابی ضرور دے گی۔ خوشگوار زندگی گزارنے کیلئے صبر، جستجو اور حوصلہ سے کام لیں، انشاء اللہ کامیابی ان کی منتظر رہے گی۔ اللہ ہر ایک کو خوشی اور خوشگوار زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ (آمین) ٭