خوف میں عوام کی خریداری‘ کرونا وائرس کے خوف کے پیش نظر دوکانوں میں چیزوں کی قلت

,

   

پڑوس کی دوکانوں نے جانکاری دی ہے کہ پچھلے دو تین دنوں میں بھاری تعداد میں صارفین نے بڑے ارڈرس دئے ہیں

کرونا وائرس سے متاثر کئی ممالک میں سوپر مارکٹ کی سنسان تصویروں اور خبروں کا اثر اب دہلی میں بھی دیکھائی دے رہا ہے‘

جہاں پر لوگ روزمرہ استعمال ہونے والے اشیاء جات کا ذخیرہ کررہے ہیں۔پڑوس کی دوکانوں نے جانکاری دی ہے کہ پچھلے دو تین دنوں میں بھاری تعداد میں صارفین نے بڑے ارڈرس دئے ہیں۔

جنگ پورا ایکسٹیشن میں سیدونائیک اسٹور چلانے والے چیتن وشیشت نے کہاکہ ”چاول‘ دالیں‘ شکر کے ارڈرس میں دوگنا تک کا اضافہ ہوگیاہے۔

عام طور پر لوگ اتناسامان خریدتے ہیں کہ وہ مہینے کے آخرتک چلے“۔

ان لائن اسٹورس جیسے بگ باسکٹ اور پرائم ناؤ(آمیزن) پر بھی بھاری آرڈرس کا سلسلہ جاری ہے۔

ساکٹ کے رہنے والے21سالہ راشی سہگل نے کہاکہ ”آج میں سوکھا سامان آرڈر کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ کل تک پہنچ جائے مگر جانکاری ملی کے ڈیلیوری میں تاخیر ہوگی۔ سابق میں محض دوگھنٹوں کے وقت میں سامان مل جایاکرتا تھا“۔

ڈی ایل ایف 5میں صافل اسٹور پر ملازمین نے کہاکہ ان کے پاس سامان جو عام طور پر دن بھر چلتا ہے کہ اس ہفتہ کے آغاز کے بعد سے تین گھنٹوں میں ختم ہوجارہا ہے۔

ایک ملازم نے کہاکہ ”ہم ہر صبح تازہ اسٹاک لے رہے ہیں اور اتنی ہی مقدر میں رکھ رہے ہیں‘ مگر ضرورت ہر صبح بڑھتی جارہی ہے۔

پیاز اور ادرک لہسن جیسی چیزیں جو زیادہ وقت تک چلتی ہیں 10بجے صبح ختم ہوجارہی ہیں۔ لوگ زیادہ مقدار میں چیزیں خرید رہے ہیں‘ ہر کوئی پریشان ہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”ہماری دوکان پر ہم نے آج سے صرف دولوگوں کا بیک وقت داخلہ منظور کیاہے‘ جو زیادہ لوگوں کی بھیڑ کو اکٹھا کرنے کے احکامات کی پابجائی کے مطابق ہے۔

ہم نے ماسک کا استعمال شروع کردیا ہے او ردوکان میں آنے والے لوگوں کے لئے کاونٹر پر ہاتھ کی صفائی والے لوشن رکھ دئے ہیں“۔

گولف کورس روڈ کی لی مارچی اسٹور پر چیزیں جیسے پکوا ن کا تیل‘ ٹائلٹ پیپر‘ سینٹری نیپکن‘ دودھ وغیرہ کی قلت ہے۔

ایک دوکاندار نے کہاکہ ”پیر کے روز سے لوگ دودھ اور آٹا بھاری مقدار میں خرید رہے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز حالات نہایت ابتر رہے۔

جس وقت تمام شاپنگ مالس کو بند کرنے کے احکامات جاری کردئے گئے تھے۔

وہیں ہماری اسٹور اس وقت سے کھلی ہے کیونکہ سوپر مارکٹس کو بند کرنے کے احکامات نہیں دئے گئے‘ لوگ اسٹاک رکھنے یا نہیں رکھنے پر الجھن کا شکار ہیں“