داغ ؔ حیدرآباد میں

   

سیف ؔ نظامی

دکن کا علاقہ علم و ادب کے اعتبار سے نہایت زرخیز رہا ہے۔ یہاں کئی ایسی شخصیتوں نے جنم لیا جنہوں نے علم و ادب کی دنیا میں بلند ترین مقامات حاصل کئے۔ دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُردو کے اولین مراکز میں سے ایک رہا ہے۔ اُردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ اسی مٹی کا پروردہ تھا۔ یہیں وجہیؔ، نصرتیؔ، ولیؔ اور سراجؔ جیسے نابغہ روزگار شعراء پیدا ہوئے۔
بہمنی قطب شاہی اور آصف جاہی دور کے بیشتر سلاطین خود بھی اہل علم و فضل تھے اور علماء، فضلا، ادبا، شعراء اور ماہرین فن کی نہ صرف قدردانی کرتے تھے بلکہ ان کی فیاضانہ سرپرستی بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سارے دور میں دکن کی سرزمین پر بالعموم علوم و فنون اور خاص طور پر اُردو شعر و ادب نے خوب ترقی کی۔ جب یہاں کے اعلیٰ علمی اور ادبی ماحول، بادشاہوں کی علم نوازی، قدردانی اور سرپرستی کے چرچے عام ہوئے تو دُور دُور سے ماہرین علم و فن نے دکن کا رُخ کیا اور یہاں انہوں نے اپنے علم و فضل کے دریا بہا دیئے۔ ان ہی میں ایک اہم نام داغ ؔ دہلوی کا۔
داغ دہلوی کا پیدائشی نام ’ابراہیم‘ تھا۔ بعد میں انہوں نے خود ہی اپنا نام بدل کر ’نواب مرزا خان‘ رکھ لیا۔ داغؔ تخلص کرتے تھے۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی کے چاندنی چوک علاقہ میں پیدا ہوئے۔ فیروزپور جھروکہ کے نواب شمس الدین خاں کی اولادوں میں سے تھے۔ جب ان کی عمر 4 سال کی تھی، انگریز ریزیڈنٹ کے قتل کے الزام میں نواب صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت کا آخری زمانہ تھا۔ انگریز اپنا تسلط جما چکے تھے۔ بادشاہت برائے نام رہ گئی تھی۔ ولی عہد نواب مرزا فخرو نے داغؔ کی والدہ سے نکاح کرلیا۔ اس وقت داغؔ کی عمر 14 سال تھی۔ داغؔ بھی اپنی والدہ کے ساتھ قلعہ معلیٰ منتقل ہوگئے اور وہیں ان کی تعلیم و تربیت شاہانہ انداز میں ہوئی۔ 1856ء میں مرزا فخرو کے انتقال تک یعنی کم و بیش 14 برس داغؔ قلعہ معلی میں رہے اور 1857ء کے ہنگاموں کے بعد اپنے سسرالی مقام رام پور منتقل ہوگئے۔
داغؔ کے کلام کی شہرت سارے ملک میں پھیل چکی تھی۔ حیدرآباد میں بھی ان کی دھوم تھی۔ یہاں بھی ان کے کئی شاگرد اور پرستار موجود تھے۔ ان میں مولودی سیف الحق اور نثار علی حسرت بھی شامل ہیں۔ ان دونوں کی خواہش تھی کہ داغؔ حیدرآباد آجائیں۔
داغؔ بھی فرمانروائے دکن حضور نظام آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کی شعر و ادب سے دلچسپی، علم پروری اور شاعروں اور ادیبوں کی فیاضانہ سرپرستی کے قصّے سن چکے تھے چنانچہ اپنے شاگردوں کے اصرار پر پہلی مرتبہ 7 اپریل 1888ء کو حیدرآباد آئے اور سیف الحق کے مہمان کی حیثیت سے سدی عنبر بازار کے قریب قیام کیا۔ حیدرآباد میں چونکہ داغؔ کے نام اور کام سے بہت بڑا حلقہ واقف تھا اور یہاں ان کے کئی پرستار تھے۔ انہوں نے جلد ہی یہاں بھی اپنا مقام بنالیا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوگئے، لیکن باوجود کوششوں کے دربار شاہی میں رسائی نہ ہوسکی۔ داغؔ جہاں دیدہ تھے، درباروں کے معاملات، آداب اور وہاں کے شب و روز سے اچھی طرح واقف تھے، بھانپ گئے کہ مزید کوششیں بے سود ہیں، اس لئے 12 جولائی 1889ء کو حیدرآباد سے روانہ ہوگئے اور بنگلور اور بمبئی میں شاگردوں سے ملتے ملاتے دِلی پہنچے۔
داغؔ یوں تو حیدرآباد سے واپس ہوگئے تھے لیکن ان کا دل یہیں اَٹکا ہوا تھا۔ ان کے شاگردوں اور مداحوں نے کوششیں جاری رکھیں۔ اس سلسلے میں راجہ گردھاری پرساد باقیؔ اور حاجی محمد ابراہیم شاہی خانسا ماں نے کچھ اور انداز سے داغؔ کو یہاں کے امراء روساء اور دربار میں روشناس کروایا اور داغؔ کے لئے فضاء کو سازگار بنایا۔ اس طرح جب ان کا کلام حضور نظام کے گوش گزار ہوا تو وہ بھی داغؔ کے مداح بن گئے۔ اپنے شاگردوں اور پرستاروں کی ایماء پر داغؔ 4 اپریل 1890ء کو دوبارہ حیدرآباد آئے۔ اس مرتبہ وہ پہلے محبوب گنج میں کمان کے قریب ایک مکان میں رہنے لگے اور پھر ترپ بازار میں سکونت اختیار کی۔ داغؔ کی شہرت اور مقبولیت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکی تھی لیکن اس کے باوجود دربار شاہی تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں رہیں۔ بالآخر 10 مہینے بعد 6 فروری 1891ء کہ حضور نظام آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں نے داغؔ کو بہ غرض اصلاح ایک غزل بھیجی اور دوسرے دن دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ یہاں سے داغؔ کی قسمت کا ستارہ چمک اُٹھا۔ غزل فوراً اصلاح کرکے بھیج دی اور دوسرے دن دربار میں حاضر ہوئے اور آداب کے مطابق نذر پیش کی۔ بس اسی دن سے دربار شاہی سے منسلک ہوگئے۔
پہلے پہل 450 روپئے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا جس کا اطلاق داغؔ کے پہلی مرتبہ حیدرآباد آنے کی تاریخ سے ہوا اور دو تین سال بعد اس وظیفہ میں مزید 550 کا اضافہ کردیا گیا یعنی اب داغؔ کو ماہانہ 1,000/- روپئے ماہانہ ملنے لگے۔ سابق کی طرح اس بار بھی اس کا اطلاق داغؔ کے پہلی مرتبہ حیدرآباد آنے کی تاریخ سے ہوا۔ اس طرح انہیں 40,000 روپئے سے زیادہ کی رقم وصول ہوئی، لیکن کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ رقم اس لئے نہیں لی کہ اس کے پاس اسے رکھنے کیلئے جگہ نہیں تھی اور اسے شاہی خزانہ میں محفوظ کروادیا۔
داغؔ کے اعزازات میں اضافہ ہوتا گیا، انہیں جہاں اُستاد، ناظم یار جنگ، دبیرالدولہ، بلبل ہندوستان اور فصیح الملک کے خطابات سے نوازا گیا۔ منصب چار ہزار، سہ ہزار سوار و علم اور نقارے سے بھی سرفراز کیا گیا۔ جاگیر میں ایک گاؤں اور ایک باغ بھی عطا کیا گیا۔ غرض آصف جاہ سادس حضور نظام نے ان کی نہایت قدر و منزلت کی۔ دربار میں مخصوص امراء اور اعلیٰ ترین عہدیداروں کے ساتھ داغؔ کی نشست ہوئی۔ یہ اعزاز استادِ شاہ ہونے کی وجہ سے ملا تھا۔ داغؔ نے بھی اپنی آن بان برقرار رکھی اور بغیر طلبی کے کبھی دربار میں نہیں گئے۔
جنوری 1903ء میں ایڈورڈ ہشتم کی تاج پوشی کی مسرت میں دہلی میں دربار منعقد ہوا۔ حضور نظام نے بھی اس میں شرکت کی۔ اس موقع پر جو چند عمائدین سلطنت حضور نظام کے ساتھ تھے، ان میں داغؔ بھی شامل تھے۔ 1899ء میں حضور نظام نے کلکتہ کا سفر کیا تھا، اس وقت بھی داغؔ ساتھ تھے۔ سیر و تفریح اور شکار وغیرہ میں بھی حضور نظام کے ساتھ ہوتے۔ اس سے داغؔ کی اہمیت، مرتبت اور نظام دکن سے ان کے غیرمعمولی تقرب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آخر عمر میں داغؔ کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ جسم کی بائیں جانب فالج کا حملہ ہوا تھا، آخر کار 14 فروری 1905ء کو اُردو کا یہ عظیم المرتبت اور مقبول ترین شاعر جس نے غزل کو اس کی حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے ترانے گائے اور زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچایا، اپنے مالک حقیقی سا جا ملا۔ حضور نظام کو اپنے اُستاد کی رحلت کا نہایت غم رہا۔ انہوں نے داغؔ کی تجہیز و تکفین کے لئے 3,000 روپئے منظور کئے۔ نمازِ جنازہ مکہ مسجد میں ادا کی گئی۔ وہ عیدالاصخی کا دن تھا۔ احاطہ درگاہ یوسفینؒ میں اپنی بیوی کے پہلو میں اُنہیں سپرد خاک کیا گیا۔
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں