درد سمجھیں

   

کیا آپ بھی ایسا دل رکھتے ہیں ایسا دل جس میں دوسروں کیلئے دردرہو یاد رکھو کہ جب تک ہم دوسروں کو اْن کے مسائل سے نجات نہیں دلائیں گے۔ تو معاشرہ نہیں بدلے گا۔شائستہ ایک آنسو چھپائے اپنے کام میں مصروف تھی اور شہر کے ایک بڑے وکیل کے گھر ملازمہ تھی آج وہ کھوئی سی نظر آرہی تھی۔اْسکے چہرے سے غم کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے وہ اپنے آنسو کو ضبط کئے اپنے کام میں لگی ہوئی تھی۔اور ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔کہ اس کی پریشانی کسی کو نظر نہ آئے۔خیر تو ہے شائستہ اتنی رنجیدہ کیوں ہوں؟کچھ نہیں بیگم صاحبہ میں آپ کو رنجیدہ کہاں سے نظر آرہی ہوں۔شائستہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے اور ٹال مٹول سے کرتے ہوئے کہا۔شائستہ !تم مجھے اپنا ہمدرد سمجھتی ہو تو بتاؤ شاید میں تمھاری پریشانی دور کر سکوں، بیگم صاحبی نے ہمدردانہ انداز میں کہاتو شائستہ کو بیگم صاحبہ اپنی ہمدرد محسوس ہوئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کچھ سنبھلی تو بولی بیگم صاحبہ! میرے شوہر کو ڈاکٹر نے گردے میں پتھری بتائی ہے۔آپریشن کیلئے رقم کا انتظام کیسے کروں گی۔یہ کہہ کر وہ پھر سسکیاں لینے لگی۔ہوں ! تو یہ پریشانی ہے تمہیں،شام کو آکر مجھ سے پیسے لے جانااور اپنے شوہر کا اچھے سے ڈاکٹر سے علاج کروانا۔یہ کہہ کر بیگم صاحبہ نے اسے دلاسہ دیا۔شائستہ احسان بھری نگاہوں سے بیگم صاحبہ کو دیکھنے لگی۔بیگم صاحبہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ارے ایسے کیوں دیکھتی ہو، میں نے انسانیت کا درد سمجھا اور اسے اس درد سے نجات دلانے کی کوشش کی ہمیشہ یاد رکھو مشکل وقت میں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے ایک عورت ہی عورت کا در دنہیں سمجھے گی تو کون سمجھے گا۔بیگم صاحبہ نے شائستہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا تھا ایسا احسان جو کم لوگ ہی دوسروں پر کرتے ہیں ،من کے سچے بچو ! کیا آپ بھی ایسا دل رکھتے ہیں ایسا دل جس میں دوسروں کیلئے دردرہو یاد رکھو کہ جب تک ہم دوسروں کو اْن کے مسائل سے نجات نہیں دلائیں گے۔ تو معاشرہ نہیں بدلے گا۔