دلتوں پر مظالم، حکومت کی مجرمانہ غفلت

   

برکھا دت
ملک میں مسلم ، عیسائی اور دلت مظالم کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور خاص طور پر جب کبھی دلتوں کو ظلم و جبر کا شکار بنایا جاتا ہے تو اس پر بہت کم برہمی دیکھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کرناٹک کے ضلع چکمگلور کے ایک کافی باغ میں کام کرنے والے 14 دلت ورکروں کو یرغمال رکھ کر اُنہیں شدید زدوکوب کیا گیا۔ ان ورکروں میں ایک حاملہ خاتون بھی تھی۔ اسے اس قدر مارا پیٹا گیا کہ اس بیچاری کا حمل ساقط ہوگیا۔ وہ چند ماہ کے حمل سے تھی۔ اس واقعہ پر کوئی زیادہ برہمی ظاہر نہیں کی گئی۔ اگر ہم گزشتہ سات آٹھ برسوں کا جائزہ لیں تو ہندوستان میں دلتوں اور قبائیلیوں پر مظالم کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک کرناٹک میں دلتوں کے ساتھ کیا گیا ناروا بلکہ مذموم سلوک کا سوال ہے، یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار اس کی تائید کرتے ہیں۔ کرناٹک واقعہ سے پہلے جھارکھنڈ میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جسے ہم جدید دور کی غلامی کہہ سکتے ہیں جہاں ایک قبائیلی خاتون نیتا دیوی کو اس کی مالکن (بی جے پی لیڈر جسے پارٹی نے اس واقعہ کے بعد معطل کرنے میں ہی عافیت سمجھی) نے نہ صرف آہنی سلاخوں سے مارپیٹ کی بلکہ فرش پر پڑا پیشاب چاٹنے پر مجبور کیا۔ میں بات کررہی ہوں سیما پاترا کی جو بی ے پی خواتین ونگ میں ایک اہم عہدہ پر فائز تھیں۔ ان تمام واقعات پر جس میں دلتوں کو زدوکوب کیا گیا، میڈیا نے کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی بلکہ عام آدمی پارٹی حکومت میں وزیر رہے۔ راجندر پال گوتم کے استعفے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ انہوں نے حال ہی میں ہندو ازم کو خیرباد کہتے ہوئے بدھ ازم اختیار کیا جس پر گودی میڈیا نے زبردست چیخ و پکار کی۔ ایسی چیخ و پکار کی جیسے عام آدمی پارٹی کے وزیر نے بدھ مت اختیار کرتے ہوئے بہت بڑا جرم اور گناہ کیا ہو۔ اب تو راجندر پال گوتم نے اروند کجریوال کی کابینہ سے استعفے بھی دے دیا ہے۔ دراصل ان کے بدھ مت اختیار کرنے پر بی جے پی اور اس کی قبیل کی تنظیموں نے برہمی ظاہر کی تھی۔ اُس کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہ اجتماعی تبدیلی مذہب سے متعلق پروگرام میں شہ نشین پر موجود تھے جہاں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے اس عہد کو دہرایا گیا جو انہوں نے ہندو مذہب ترک کرکے بدھ مت اختیار کرنے کے دوران کیا تھا۔ اس میں ہندومت سے بیزارگی کا اظہار کیا گیا۔ 60 سال قبل 15 اکٹوبر کو ناگپور میں اسی طرح کا تبدیلی مذہب پروگرام منعقد ہوا تھا جس میں 22 عہد لئے گئے تھے یعنی حلف لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جنہیں دستور ہند کا معمار کہا جاتا ہے، جن کی تصویر ہر سرکاری دفتر کی دیواروں پر موجود رہتی ہے اور ملک کے ہر چھوٹے بڑے ٹاؤن یہاں تک قصبات میں بھی ان کے مجسمے دکھائی دیتے ہیں۔ ان ہی امبیڈکر نے اس وقت دوسرے 3.65 لاکھ دلتوں کے ساتھ ببانگ دہل بدھ مت اختیار کرلیا تھا اور ہندوازم چھوڑنے کا حلف لے کر سارے ہندوستان بالخصوص اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں کو حیران کردیا تھا۔ حلف اس بات کا لیا گیا تھا کہ وہ ہندومت ترک کرکے بدھ مت اختیار کرچکے ہیں۔ اب برہما وشنویا مہیش کی پوجا نہیں کریں گے۔ خود بی جے پی کے دلت لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ امبیڈکر یا اس کے بعد ہندومت چھوڑ کر بدھ مت اختیار کرنے والوں کا حلف یا عہد ہندوازم پر حملہ نہیں ہے بلکہ ذات پات کے نظام کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ حلف میں کسی بھی ہندو دیوی دیوتا کے خلاف توہین آمیز الفاظ بھی نہیں ہیں۔ ہاں! یقینا اس میں ہندومت کے عقیدہ کو مسترد کیا گیا اور یہ یوں ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کے سماجی استبداد کی حقیقت کی بنیاد پر کیا گیا۔ جہاں تک تبدیلی مذہب کا سوال ہے، یہ ہمیشہ سے ہی ایک مجہول سیاسی موضوع رہا ہے۔ گوتم نے جس طرح اپنے ہندو نہ رہنے اور بدھ ازم اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد پولیس نے انہیں طلب کرکے ایسے پوچھ تاچھ کی جیسے وہ ایک مجرم ہو۔ چونکہ گجرات اور دوسری کچھ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ تبدیلی مذہب کا موضوع بی جے پی کے ہاتھ آگیا اور اس نے عام آدمی پارٹی کو ہندو دشمن قرار دینے میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں کی۔ گجرات کے کئی مقامات پر تو بی جے پی نے ایسے ہورڈنگس لگوائے جس میں اروند کجریوال سر پر ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اروند کجریوال کابینہ کا ایک وزیر ہندو مذہب ترک کرکے بدھ ازم قبول کرتا ہے اور بی جے پی والے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کجریوال کی ایسی تصاویر منظر عام پر لاتے ہیں جس میں وہ ٹوپی پہنے ہوئے ہیں حالانکہ اس سارے قصے میں مسلمانوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں، پھر بھی اروند کجریوال کو موافق مسلم قرار دینے کی بی جے پی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ گجرات میں عام آدمی پارٹی اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ اسے اُمید ہے کہ گجرات میں وہ کانگریس کا مقام حاصل کرے گی اور کانگریس کی قیمت پر اقتدار حاصل کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے نرم ہندوتوا کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں بدھ مت اختیار کرنے والے گوتم کو کابینہ سے ہٹا دیا گیا۔ عام آدمی پارٹی نے ان کا ساتھ بھی نہیں دیا اور عام آدمی پارٹی نے اس طرح ایک ممتاز دلت چہرہ کھو دیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی جو تصانیف ہے، ان میں امبیڈکر کا حلف اور عہد بھی شامل ہے اور حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی فاؤنڈیشن نے ان کی اشاعت بھی عمل میں لائی ہے۔ باالفاظ دیگر گوتم کو اس بات کی سزا دی جارہی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جس کا تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست داں احترام کرتے ہیں۔ اب تو ملک میں یہ حال ہوگیا ہے کہ تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کئی ریاستوں بشمول کرناٹک نے اس سلسلے میں قانون سازی کی ہے۔ انسداد تبدیلی مذہب قوانین بنائے اور منظور کئے جارہے ہیں اور مذہب تبدیل کرنے کیلئے رِجھانے یا مجبور کرنے پر سزا بھی دینے کے اقدامات کئے جارہے ہیں جبکہ دستور کی دفعہ 25 خاص طور پر شہریوں کو اپنے پسند کا مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق دیتی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اس طرح کے قوانین کی مدافعت کرتی ہے، اس کا یہ کہنا ہے کہ ریاستوں نے اس حق پر جو پابندیاں اور امتناعات عائد کئے ہیں، وہ منصفانہ ہیں۔ اس کا استدلال ہے کہ مذہب کی تبدیلی ہمیشہ آزادانہ یا خود کی مرضی سے نہیں ہوتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی ریاست کی مداخلتوں کے قانونی جواز کو برقرار رکھا۔ جہاں تک گوتم کی مذہبی تبدیلی کا سوال ہے، میں نے ان کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے اُلٹا مجھ سے ایک مشکل سوال کیا کہ اگر ہم ہندو ہیں تو پھر آپ اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔ دراصل وہ ذات پات کے نام پر کئے جانے والے مظالم کا حوالہ دے رہے تھے۔